صحیح اور متوازن غذا صحت مند جسم، دلکش جلد، بالوں اور خوبصورتی کی اصل بنیاد ہوتی ہے۔

مثل مشہور ہے کہ ہم وہی ہوتے ہیں جو ہم کھاتے ہیں۔
صحیح اور متوازن غذا صحت مند جسم، دلکش جلد، بالوں اور خوبصورتی کی اصل بنیاد ہوتی ہے۔متوازن اور غذائیت سے بھر پور غذا ہمیں نہ صرف بیماریوں سے بچاتی ہے بلکہ ایک صحت مند جسم ہی ایک صحت مند دماغ کو جنم دیتا ہے۔
یہ اور بہت سے مصدقہ حقائق ہم روز پڑھتے،سنتے اور بولتے ہیں مگر آخر متوازن اور غذائیت سے بھر پور غذا کیا ہے۔؟ کون سی چیز کتنی مقدار میں لینا درست ہے؟ عام استعمال کی اشیاء کو کس طرح غذائیت سے بھرپور بنایا جاسکتا ہے؟ کس غذاسے کس بیماری میں مدد مل سکتی ہے اور کس میں نقصان کا احتمال ہے؟ یہ اور ان سارے سوالوں کے جواب کی تلاش ہماری غذائی ماہر فایزہ خان سے ملاقات کا سبب بنی۔
فائیزہ خان پاکستان نیوٹریشن اینڈ ڈائٹیشن سوسائٹی کی صدر ہیں انہوں نے فور اینڈ نیوٹریشن میں ماسٹر ز کیاہے۔ اس وقت وہ کڈنی سینٹر اینڈ پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ انسٹیوٹ کے شعبہ نیوٹریشن اور ڈائٹیشن کی سربراہ ہیں۔
فائزہ سے گفتگو کا آغاز ملک میں متوازن غذا اور غذا ئیت کے حوالے سے آگہی نہ ہونے کے حوالے سے ہوا؟
جواب:یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے جس پر فوری توجہ درکار ہے پاکستان اس وقت غذائیت کے حوالے سے دو انتہاوں پر کھڑا ہے اور دونوں طرف بہت کام کی ضرورت ہے ایک جانب تو ہم مٹاپے کا شکار یا وزن کی زیادتی کے شکار افراد کے حوالے سے عالمی رینکنگ پر نویں نمبر پر ہیں اور دوسری جانب ہمارے 45فیصد بچے اور50فیصد سے زیادہ خواتین کم غذائیت اور غیر متوازن غذا کی وجہ سے دیگر کمزوریوں کے شکار ہیں۔ اگر ہم اپنی قوم کو اقوام عالم میں آگے دیکھنا چاہتے ہیں تو ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس جانب متوجہ ہوناہوگا اورہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔
کیا حکومتی سطح پر اس حوالے سے کچھ کام ہواہے؟
جواب: :بہت کم۔ 2016غذائیت کا شعبہ حکومت کے ایجنڈے پر آیا ہے اور یہ سوچا گیا کہ اس حوالے سے بھی کچھ کام ہونا چاہیے اصل میں اس کا تعلق ماں کی تعلیم سے بھی ہے اگر خواتین کی تعلیم پر توجہ دی جائے اور نصاب میں اس چیز کی آگہی کا خیال کیا جائے تو اس سے بہترین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اسکولوں میں بچوں کو اس حوالے سے معلومات فراہم کی جانی چاہیے۔ دنیا میں بچوں کو اس حوالے سے تعلیم دی جاتی ہے۔اسکولوں میں ناشتہ اور لنچ دیا جاتا ہے پنجاب میں کچھ اسکولوں میں لنچ پروگرام لانچ کیا گیا تھا۔ سندھ میں بھی توانا پروگرام شروع کیا گیاتھا اس کی اصل روح یہ تھی کہ بچو ں اور ان کی ماؤں کو عملی طور پر یہ سیکھا یا جائے گا کہ روز مزہ کی خوراک کو کس طرح غذایت سے بھر پور کیا جاسکتا ہے۔ مگر آخری وقت میں یہ پروگرام رول بیک کر دیا گیا اور اس توانا پروگرام کے تحت بسکٹ اور دودھ دیا جانے لگا۔ سوسائٹی نے اس پر کافی احتجاج بھی کیا مگر کچھ نہیں ہوا۔ اصل وجہ یہ ہے کہ اس شعبے کو اب تک حکومتی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا۔
بہت سے اچھے ماہرین موجود ہیں مگر جب کوئی پروجیکٹ بنتا ہے تو اس میں انہیں شامل نہیں کیا جاتا۔اگر اس حوالے سے ملازمتیں بھی نکلتی ہے تو اکثر غذائی ماہرین کی بجائے دوسرے افراد کو ملازمتیں دے دی جاتی ہیں۔سمجھنے کی بات یہ ہے کہ غذا کے بارے غذائی ماہر ہی مشورہ دے سکتا ہے۔ڈاکٹر بھی یہ کام اس طرح نہیں کر سکتا۔اس حوالے سے قاعدے اور نیوٹرشن اینڈ ڈائٹیشن کونسل کا قیام وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
نیوٹرشن اورڈائٹیشن جسے آپ ماہر غذا اور غذائیت بھی کہہ سکتے ہیں نہ صرف عام حالات میں آپ کو صحت مند رکنے کے لئے صحیح غذا تجویز کرسکتا ہے بلکہ بیماری کے دوران اور اسپتالوں میں تو اس کی اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ مریضوں کو ان کی بیماری کے مطابق غذا دی جاسکے۔ہمارے ہاں حال یہ ہے ک قومی ادارہ امراض قلب میں صرف ایک غذائی ماہر ہے جناح اسپتال میں کوئی نہیں،سول اسپتال میں سرکاری طورپر کوئی جگہ نہیں ۔ بچوں کے اسپتال میں کوئی باقائدہ غذائی ماہر موجود نہیں ہے۔جبکہ یہ انتہائی ضروری ہے صرف یہ ہی مسئلہ نہیں ہے، ملک بھر میں بے شمار جم اور وزن کم کرنے والے ادارے کا م کررہے ہیں جن کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ فٹنس ٹرینرز ڈائیٹیشن یا غذائی ماہرین بنے ہوئے ہیں۔جبکہ یہ بالکل الگ شعبے ہیں۔ کون کس کو کیا کھلا رہا ہے ووزن کم کرنے کے واسطے پانی پلایا جا رہا ہے ڈایٹ دی جارہی ہیں اور یہ سب وہ کر رہے ہیں جنہیں اس شعبے میں مہارت تو ایک طرف اس کی معلومات بھی نہیں ہے۔ میں آپ کے توسط سے خواتین تک یہ بات پہچانا چاہتی ہوں اگر آپ وزن کم کرنا چاہتی ہیں تو ورزش کے لیے جم ضرور جوائن کریں مگر غذا کا مشورہ غذائی ماہر سے لیں۔ کوئی پاؤڈر،کوئی ڈائٹ، کوئی پانی بغیر مشورے کے ہرگز استعمال نہ کریں۔
پاکستان نیوٹرشن اینڈڈائیٹیشن سوسائیٹی پاکستان میں کب سے اور کیا کام کر رہی ہے اور کیا اسے بین القوامی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے؟
جواب: پاکستان نیوٹرشن اینڈڈائیٹیشن سوسائیٹی 2003سے کام کر رہی ہے اس کی شروعات ملک میں غذائیت کے حوالے سے بہتر کام کرنے کے جذبے کے ساتھ ہوئی تھی پہلے چند لوگ تھے پھر کارواں بنتا گیا، اب سوسائٹی کے کراچی میں مرکزی دفتر کے علاوہ لاہور، اسلام آباد اور فیصل آباد چیپٹر بھی کام کررہے ہیں، ہمارے ملک بھر میں سات سو سے زیادہ ممبران ہیں۔ سوسائٹی کو بین الاقوامی ڈائٹیشن کنفیڈریشن آف ڈائٹیٹک ایسو سی ایشن، ایشین فیڈریشن آف ڈائٹیٹک ایسو سی ایشن، نیوٹریشن سوسائٹی یو کے، اور امریکن نیوٹریشن سوسائٹی میں پاکستان کی واحد یوٹریشن اینڈ ڈائٹیشن سوسائٹی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔اس کے ساتھ سوسائٹی ملک میں موجود ماہرین غذائیت کے امتحانات بھی منعقد کراتی ہے جس کے بعد انہیں سوسائٹی کی طرف سے رجسٹرڈ ڈائٹیشن نیوٹریشنسٹ تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہمارا مطالبہ بھی یہ ہی ہے کہ حکومت اس شعبے کی اہمیت سمجھے اور نیشنل نیوٹریشن کونسل کا قیام عمل میں لائے۔ تاکہ لوگوں کو بھی اس حوالے سے بہتر آگہی ملے۔فوڈ ٹیکنالوجی اورنیوٹریشن میں فرق ہوتا ہے اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ ایک کونسل بن جائے جو ان سب میں فرق متعین کرے۔اگر تعلیمی اعتبار سے دیکھیں تو سندھ میں غذائیت کے حوالے سے تعلیمی ادارے صرف دو ہی ہیں اور اگر کوئی پی ایچ ڈی کرنا چاہے تو اسکے بھی مواقع بہت کم ہیں پنجاب اس حوالے سے آگے ہے۔
آج کل غذائیت کی کمی ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
جواب:آج کل ہو یہ گیا ہے کہ ہمارے لائف اسٹایل بدل گیا ہے برگر،پیزا،فاسٹ فوڈ فیشن کا حصہ بن گیا ہے۔پروسیسڈ فوڈ یعنی چپس،بسکٹ،
ڈبہ بندکھانے،کولڈ ڈرنک کو ہم نے اپنی غذا کا متبادل سمجھ لیا ہے جب یہ غذا ہی نہیں تو غذائیت کیسے ہوگی اور پھر طاقت کہاں سے آئے گی۔کھانے کا معیار ایک اہم معاملہ ہوتا ہے۔جبکہ یہاں فورڈ اتھارٹی میں بھی وہ لوگ رکھے جاتے ہیں جنہیں غذائیت کا علم نہیں ہوتا۔ عائشہ ممتاز کا ہم نے کتنا ذکر سنا، وہ قابل اور ذمے دار خاتون ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر کیا وہ غذائیت کی ماہر ہیں،فوڈ اتھارٹی کے قوانین اور اسٹینڈرڈز 1970سے بنے ہوئے ہیں جن میں حالات کے مطابق تبدیلی کی ضرورت ہے۔ صحت کی خرابی کا سب سے بڑا مسلۂ غذا کا کم ترمعیار اور ملاوٹ ہے۔عالم یہ ہے کہ یہاں کڈنی سنٹر میں سامان ایک بڑے اسٹور سے خریدا جاتا ہے میں نے گزشتہ دنوں کالی مرچ پاوڈر کا جائیزہ لیا تو وہ بالکل پھیکا تھا یعنی کالی مرچ کاذا ئقہ ہی نہیں تھا یہ تو حال ہے۔
غذائیت سے بھر پور غذا کا مطلب کیا ہے؟ہمیں کیاکھانا چاہیے؟
جواب: دیکھے غذائیت سے بھر پور غذا کا مطلب ہے متوازن غذا یعنی سب کچھ کھا ئیے اگر اناج کی بات ہے تو کچھ حصہ بغیر چھنا ہوا استعمال کرنا چاہیے یعنی کم از کم ایک وقت کی روٹی بھوسی سمیت لیں۔ گوشت ہر قسم کا استعمال کریں گائے،بکرا، مرغی، مچھلی،۔مرغی کا حد سے زیادہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ ریڈمیٹ (سرخ گوشت) بھی ضروری ہے اس سے خون بنتا ہے مگر کم چکنائی اور ہفتے میں ایک بار،دال کا استعمال بہت ضروری ہے۔پھلیا ں،سبزیاں اور دال کا ہر روز استعمال کریں۔کوشش کریں کہ ہر غذا میں سبزی شامل ہو گوشت کے ساتھ بھی سبزی ڈال کر پکائیں۔موسمی پھل ضرور استعمال کریں دودھ،دہی اور پنیر وغیرہ بہت ضروری ہے۔ اس کی بچوں،عورتوں، مردوں اور بزرگوں سب کو ضرورت ہوتی ہے۔ چکنائی کے بغیر استعمال کریں تو بہت بہتر ہے۔ دل کی بیماریوں میں بھی دودھ بہت فائدہ دیتا ہے ہڈیوں کے لئے تو یہ ضروری ہے ہی۔
کہا جاتا ہے اگر آپریشن ہو یا زخم ہوتو دودہ نہیں پینا چاہیے، اس سے انفیکشن ہونے کا خطرہ ہوتا ہے؟
جواب:اس میں کوئی صداقت نہیں دودھ پروٹین فراہم کرتاہے بیماری میں اس سے مدد فراہم ہوتی ہے۔اپ حیران ہونگی مگر دودھ اور اس کی اشیاء کا صیح استعمال وزن کم کرنے میں بھی مدد گار ہوتا ہے۔چکنائی کا بالکل بند کردینا بھی درست نہیں البتہ اگر آپ کا وزن زیادہ ہے تو کم استعمال کرنا چاہیے بیجوں اور نٹس کی چکنائی بہترین ہے بیکری کی تیار کردہ چیزیں اور سڑ ک پر ملنے والاکھانا صحت کو نقصان پہنچاتا ہے یہ بیماریوں کو بڑھانے میں بہت کردار ادا کرتا ہے۔ نمکیات کا استعمال ایک حد میں ہونا چاہیے۔ ہمارے پاس لوگ آتے ہیں کہ بلڈپرشر کنٹرول نہیں ہوتا مگر باہر کا کھانا نہیں چھوڑتے۔یادرکھیں کہ آپ کی غذا آپ کی صحت کی بنیاد ہے۔چینی کم استعمال کریں ہوسکے تو گڑکی کھانڈ جیسے براؤ ن شوگرکہتے ہیں اس کو تر جیع دیں چینی بہت ساری بیماریوں کی جڑ ہے۔اگر شوگر کنڑول نہ ہو تو پھر بہت سی بیماریاں راہ دیکھ لیتی ہیں اگرآپ کو شوگر کا مسئلہ نہیں تب بھی پورے دن میں 3چچ شکر سے زیادہ نہ لیں۔
بچوں کی غذا پر بہت توجہ ہونی چاہیے، کہا جاتا ہے شروع کے دو سال بچوں کی غذائی عادات کے حوالے سے بہت اہم ہوتے ہیں۔اسمیں انہیں ہر طرح کی غذا ئی عادت ہونی چاہیے مگر ہمارے ملک میں آگاہی کی بہت کمی ہے جبکہ اشتہارات باقی کسر پوری کر دیتے ہیں صحت کے لیے مضر مشروبات،فروذن کھانے اسی طرح کی تمام اشیا ء اس طرح پیش کی جاتی ہیں کہ وہ اسٹیٹس بن جاتی ہیں۔ گاؤں دیہاتوں تک میں اپ کو کچھ ملے نہ ملے سیر یلیک کے شاشے ملیں گے جبکہ سیریلیک اضافی غذا ضرور قرار دی جاسکتی ہے مگر غذا کا متبادل نہیں
اسی طرح پروسیسڈ میٹ یا ریڈی ٹو کک چیزوں کا زیادہ استعمال خطر ناک ہے کیا آپ جانتے ہیں کہ ورلڈ کینسر فاونڈیشن نے اس کے زیادہ استعمال پر پابندی لگائی ہوئی ہے مائیں بڑے شوق سے بچوں کو انرجی ڈرنک دیتی ہیں جو جسمانی عمل کو تیز ترین کر دیتا ہے اور جسم سے منرل نکل جاتے ہیں عمر سے پہلے ہڈیوں میں بھر بھرا پن اور کمزوری ہوجاتی ہے۔ گردے خراب ہو جاتے ہیں اس حوالے سے معاشرے میں بھر پور آگہی کی ضرورت ہے۔ عوامی آگہی کے پیغامات چلائے جانے چاہیں۔میڈیا کو اس حوالے سے کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ملکی سطح پر کام ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں غذا پر توجہ نہیں۔جسمانی ورزش کے مواقع کم ہیں۔غذایت کے لیے پالیسی بنائی جانی چاہیے
آسٹریلیا میں بھی صحت و غذائیت کے مسائل بڑھتے جارہے تھے لوگ فاسٹ فوڈ وغیرہ کے بہت عادی ہوگئے تھے تو حکومت نے پالیسی بنائی کہ اتنے کلومیٹر کے اندر دو فاسٹ فوڈ نہیں کھل سکتے اور وہاں بڑی فوڈ چینز بھی اس پر عمل کرتی ہیں۔ ہمیں بھی ملکی سطح پر قدم اٹھانے ہونگے ورنہ حالات اور خراب ہو جائیں گے۔ ملک میں گردوں کے امراض بڑھتے جارہے ہیں بہت سی بیماریوں کا علاج صرف طرز زندگی کی تبدیلی سے ہوسکتاہے اورخواتین اس حوالے کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔
وزن کی زیادتی خواتین کا ایک بڑا مسئلہ ہے اس حوالے سے آپ کا کیا کہنا ہے؟
جواب: بالکل! وزن کی زیادتی بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے۔مگر اس کی کمی کا ایک طریقہ کار ہے یاد رکھیے راتوں رات کوئی دبلا نہیں ہوسکتا اور جوبھی یہ دعوی کرتا ہے وہ یاتو اسٹرائڈز دے رہا ہے یا کوئی ایسی چیزجو آپ کی صحت کو برباد کر سکتی ہے FDA سے منظو ر شدہ صرف ایک سپلیمنٹ موجود ہے جبکہ یہاں جس جم میں جائیے وہ ڈھیروں چیزیں دے رہے ہوتے ہیں کوئی جادوئی پانی دے رہاہے،کوئی بارہ انڈے روز کھانے کا مشورہ دیتا ہے یہ جانے بغیر کے پروٹین کی زیادتی کیا قیامت کرسکتی ہے یہ سب چیزیں آپ کے گردوں کو برباد کر سکتی ہیں اور ایک بڑے جم میں اس حوالے سے دو افراد کی موت بھی ہوچکی ہے۔یہاں لوگ چالیس دن چیلنج اور نہ جانے کیا کیا کر رہے ہیں۔طریقہ صرف یہ ہے کہ کسی اچھے غذائی ماہرسے اپنے حساب سے غذا کا چارٹ بنوائیں۔ایک چیز کم کھانے کا مطلب دوسری چیزوں کی زیادتی کرنا نہیں ہے اور نہ ہی بھوکا رہنا ڈایٹ ہے۔ متوازن غذا مقررہ مقدار میں لیں اور ورزش کریں۔ تیز تیز قدموں سے چہل قدمی کریں اور اپنی غذائی عادات تبدیل کریں یہ سب ایک دن میں نہیں ہوگا میں ایک بات اور کہنا چاہتی ہوکہ عطائی ڈاکٹروں کی طرح عطائی ماہرین غذایت کا مشورہ آپ کی صحت تباہ کو سکتا ہے اس وقت کھانا پکانے کے ماہرین ہوں یا ٹیلی وژن پروگراموں کے مہمان سب ہی ماہرین غذائیت بنے ہوئے ہیں حکومت کو ان غذائی عطائیوں پر پابندی لگانی چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں