لینڈ مافیا سرمایہ کاری اور صنعت کاری کی حوصلہ شکنی کر رہا ہے: عاطف اکرام شیخ، صدر ایف پی سی سی آئی

صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے کہا ہے کہ سندھ میں لینڈ مافیا نے صوبے کی صنعتوں میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی ہے اور سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچایا ہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ امن و امان کی صورتحال سرمایہ کاری، صنعتی ترقی، تجارت، ٹرانسپورٹیشن اور اقتصادی سرگرمیوں کی لائف لائن ہے۔ واضح رہے کہ سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل رفعت مختار راجہ نے سندھ پولیس کی اعلیٰ قیادت کے ہمراہ کراچی میں ایف پی سی سی آئی کے ہیڈ آفس کا دورہ کیا۔پولیس کی سنیئر قیادت بھی ان کے ہمراہ تھی جن میں ایڈیشنل آئی جی کراچی خادم حسین رند؛ ڈی آئی جی اسٹیبلشمنٹ سید پیر محمد شاہ؛ ڈی آئی جی ٹریفک اقبال دارا؛ ڈی آئی جی ساؤتھ سید اسد رضا اور ایڈیشنل آئی جی ایڈمن سید علی آصف شامل تھے۔سنیئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے وضاحت کی کہ اگر ہم صوبے سے لینڈ مافیا کو ختم کر دیں تو ہم سندھ میں صنعتی انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ لینڈ مافیا کی مجرمانہ سرگرمیوں کی وجہ سے نئے صنعتی علاقے صنعتوں کو اپنی جانب راغب نہیں کر پا رہے ہیں اور کراچی میں قائم صنعتی علاقوں میں صنعتی پلاٹ اتنے مہنگے ہو گئے ہیں کہ اب وہ چالیس کروڑ رو پے فی ایکڑ تک مہنگے ہو گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی نئی صنعت ان مہنگے پلاٹوں کی متحمل نہیں ہو سکتی اور پلاٹوں کی قیمتیں موجودہ صنعتوں کی توسیع میں بھی رکاوٹ ہیں۔سنیئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے بتایا کہ اغوا اور بھتہ خوری کے واقعات میں 300 فیصد سے زائد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے؛ کیونکہ اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں بھتہ خوری کے 50 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ 2022 میں اس طرح کے 12 کیسز سامنے آئے تھے؛جوکہ 317 فیصد کے بہت بڑے اضافے کی عکاسی کرتے ہیں۔نائب صدر ایف پی سی سی آئی ذکی اعجاز نے زور دے کر کہا کہ کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کراچی سے ملک بھر میں سامان کی نقل و حمل کے راستوں کی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہے؛ کیونکہ بڑے پیمانے پر چوری اور سیکورٹی کے مسائل در پیش ہیں۔

پہلے کراچی سے درآمد شدہ خام مال کو دوسرے صوبوں تک پہنچانا اور پھر تیار مال کو ایکسپورٹ کے لیے واپس کراچی پہنچانے میں دونوں ہی طرف خطرات درپیش رہتے ہیں۔آئی جی سندھ پولیس رفعت مختار راجہ نے تجویز پیش کی کہ زمینوں پر قبضے کے معاملات کو حل کرنے کے لیے ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں کمیٹیاں بنانے کی ضرورت ہے اور سرکاری اداروں کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے نمائندے؛ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نجی شعبے کو کمیٹیوں کا حصہ ہونا چاہیے۔ ڈپٹی کمشنرز لینڈ اور ریونیو ریکارڈ کے کسٹوڈین ہوتے ہیں؛ جس کی بنا پر وہ باخبر فیصلے لے سکتے ہیں اور پھر قانون نافذ کرنے والے ادارے ان فیصلوں کو نافذ کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔آئی جی سندھ نے مزید کہا کہ لرننگ ڈرائیونگ لائسنس اب آن لائن بنائے جائیں گے اور اس سے عام لوگوں کو ریلیف ملے گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پولیس 25,000 عادی جرائم پیشہ افراد کو ای ٹیگ کرنا چاہتی ہے؛ لیکن، مالی رکاوٹیں در پیش ہیں، کیونکہ ہر ای ٹیگنگ کی قیمت 400 ڈالر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں