کاروباری برادری فیئر ٹریٹمنٹ کے لیے وفاقی ٹیکس محتسب(FTO) کی طرف ہی دیکھتی ہے:عاطف اکرام شیخ، صدر ایف پی سی سی آئی

 صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے تجویز دی ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیومیں بد نظمی سے نمٹنے کے لیے وفاقی ٹیکس محتسب (FTO) کے دفتر کو استعمال میں لایا جائے تاکہ ایک منصفانہ، بدعنوانی سے پاک ادارہ اور ٹیکس کی وسیع بنیاد پر مبنی نظام بنایا جاسکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بزنس کمیونٹی ٹیکس مشینری کے ہاتھوں منصفانہ سلوک کے لیے ایف ٹی او کی طرف دیکھتی ہے۔ عاطف اکرام شیخ نے واضح کیا کہ ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا، ٹیکس کے نظام کو آسان بنانا اور ٹیکس وصولی اور فیصلوں کے اختیارات کی علیحدگی ایف بی آر میں اصلاحات کے رہنما اصول ہونے چاہئیں؛تاکہ کاروبار اور معیشت کی ضروریات کو یکساں طور پر پورا کیا جا سکے۔ عاطف اکرام شیخ نے اس بات پر زور دیا کہ ایف ٹی او کو ایک جامع اور موثر اصلاحاتی ایجنڈا رکھنے کے لیے معیشت کے تمام سیکٹرز سے مشیروں اور ٹیکنوکریٹس کو شامل کرنے کے لیے وسائل دیئے جائیں۔ انہوں نے ایف ٹی او کے دفتر کی طرف سے متاثرہ فریقوں کو فراہم کردہ ٹیکس اور کسٹم تنازعات کے ہزاروں منصفانہ، تیز تر،عملیت پسند اور بغیر کسی لاگت کے مسائل کے حل اور فیصلوں کو بھی سراہا۔سنیئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے نشاندہی کی کہ عدلیہ اور ایگزیکٹو کی علیحدگی کے ثابت شدہ اور اصولی نظام کو لاگو کرنے کے لیے ٹیکس وصولی اور فیصلے کرنے کے اختیارات کو الگ کرنا ناگزیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک ٹیکس جمع کرنے والا ہی فیصلہ کنندہ رہے گا، بدانتظامی، ہراساں کرنا، کرپشن اور ٹیکس چوری ختم نہیں ہوگی۔ثاقب فیاض مگوں نے ایف پی سی سی آئی کی جانب سے ایف بی آر کو بھیجے گئے خطوط اور دیگر خط و کتابت کے حوالے سے غفلت برتنے کی بابت فیڈریشن کا نقطہ نظر بھی پیش کیا۔ تاہم، ایف بی آر کاروباری برادری کی ایپکس باڈی کے خدشات، شکایات اور فیڈ بیک کا جواب دینے میں ناکام رہتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایف پی سی سی آئی FTO کی توجہ چاہتا ہے کہ وہ اس بددیانتی اور غیر پیشہ وارنہ رویے کا نوٹس لے۔ نائب صدر ایف پی سی سی آئی آصف سخی نے کہا کہ FTO کا دفتر حقیقی معنوں میں مدد فراہم کرنے والا ادارہ بن گیا ہے اور اس کے غیرجانبدارانہ، میرٹ پر مبنی اور تنازعات سے آزادانہ ازالے فراہم کرنے نے یہ ظاہر کیا ہے کہ درست قوانین اور ان کا صحیح معنوں میں نفاذ ٹیکس دہندگان کو ٹیکس افسران کے ہاتھوں ناروا سلوک سے بچا سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ ایف بی آر اب بھی ایف ٹی او کے فیصلوں، قراردادوں، ازالوں اور ایڈوائزری پر تیزی سے عمل درآمد کرنے سے گریزاں ہے۔نائب صدر ایف پی سی سی آئی امان پراچہ نے چائے کی پتی کی بلک میں درآمد میں بڑی اناملی کا مسئلہ اٹھایاکہ جہاں پرنٹ شدہ MRP کے ساتھ صرف چھوٹی پیکیجنگ پر MRP پر مبنی سیلز ٹیکس عائد کیا جانا چاہئے؛لیکن، یہ بلک امپورٹ پر بھی لاگو کردیا جاتا ہے۔

یہ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی خلاف ورزی ہے اور بلک صنعتی درآمدات کو MRP کے ساتھ مشروط نہیں کیا جاسکتا۔بلک درآمدات کو خام مال کے طور پر لیا جانا چاہیے؛ کیونکہ ان درآمدات کو مزید پروسیسنگ، بلینڈنگ، ویلیو ایڈیشن اور پیک کیا جاتا ہے۔ وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے تاجر برادری کو ایف ٹی او کے دفتر کے مینڈیٹ اور کارکردگی سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ تاجر برادری کی 80 سے 90 فیصد شکایات اوسطاً ان کے حق میں جاتی ہیں۔ شکایت کنندگان کے پاس ایف ٹی او میں اپیل کرنے یا صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئینی دفتر میں بھی اپیل کا اختیار ہے۔ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے مزید کہا کہ ایف ٹی او ٹیکس اور کسٹم حکام کو براہ راست سرزنش نہیں کر سکتا۔ لیکن، وہ اختیارات کے غلط استعمال، بدانتظامی، بے ضابطگیوں، ہراساں کرنے اور بدعنوانی کے بارے میں اپنے مشاہدات پیش کرتاہے اور ان کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ایف ٹی او کے ادارے کے دیگر کاموں کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے کہا کہ معائنہ، خود کار نو ٹس اور تحقیق بھی لازمی ہے۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے یہ بھی کہا کہ وہ شکایات کے ازالے کے ٹائم کو 40 دن سے کم کر کے 40 گھنٹے کرنا چاہتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں