انڈسٹری کا مطالبہ ہے کہ 9 سینٹ فی کلو واٹ آور الیکٹرک سٹی ٹیرف کے اعالن کا فوری نفاذ کیا جائے ثاقب فیاض مگوں، قائم مقام صدر، ایف پی سی سی آئی

قائم مقام صدر، ایف پی سی سی آئی،ثاقب فیاض مگوں نے آگاہ کیا ہے کہ صنعتیں بالعموم اور ایس ایم ایز سیکٹر میں موجودصنعتیں خاص طور پر تباہی کے دہانے پر ہیں اور غیرمعمولی کاروباری الگت کی وجہ سے ہونے والے ناقابل برداشت مالی نقصانات کی وجہ سے بند ہو رہی ہیں۔واضح رہے کہ، کاروبار کرنے کی الگت بنیادی طور پر بجلی اور گیس کی قیمتوں کی وجہ سے بہت بڑھ چکی ہے، جس نے پاکستانی ایکسپورٹرز کو برآمدی منڈیوں میں بڑے مارجن سے غیر مسابقتی بنا دیا ہے۔قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ایف پی سی سی آئی واضح طور پر مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت کی طرف سے صنعتوں کے لیے اعالن کردہ 9 سینٹس فی کلو واٹ آور بجلی کے ٹیرف کو فوری طور پر الگو کیا جائے۔انہو ں نے مزید کہا کہ ہم 17 سینٹ فی کلو واٹ آور ادا کر رہے ہیں؛ جبکہ ہمارے عالقائی حریف ممالک کی صنعتیں اس قیمت کے نصف پر بجلی حاصل کر رہے ہیں۔ ثاقب فیاض مگوں نے وضاحت کی کہ جوالئی 2018 سے بجلی کی خریداری کی قیمت میں 95.82 فیصد اضافہ ہوچکا ہے؛ جس کی بنیادی وجہ بجلی کے نرخوں میں کیپیسٹی چارجز والے جزو ہیں۔ پچھلے سال، ہم نے بجلی کی پیداوار میں 10 فیصد کمی دیکھی؛ جس کے نتیجے میں فی یونٹ کیپیسٹی چارجز مزید بڑھے۔

 تخمینے بتاتے ہیں کہ مالی سال 24-2023 کے لیے صنعتی صارفین کو 244 ارب روپے کی کراس سبسڈی کے بوجھ کا سامنا ہے۔قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے مزید کہا کہ صنعت اور تجارت کے تحفظ کے لیے کراس سبسڈی کا خاتمہ الزمی ہے؛ کیونکہ یہ غیر منصفانہ ہے۔گیس سیکٹر کے معامالت پر ثاقب فیاض مگوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اس ماہ کے شروع میں وفاقی کابینہ نے گیس کی قیمتوں میں نمایاں اضافے کی منظوری دی تھی۔ رہائشی صارفین کے لیے 67 فیصدتک اور کھاد پالنٹس کے لیے 700 فیصد تک اضافہ کیا گیا۔ کھاد کے پالنٹس کے لیے گیس کے نرخوں میں اضافے سے ملک میں خوردنی اشیاء میں افراط زر میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔ اس کے عالوہ، ملک میں گیس کی پیداوار میں کمی آئی رہ MMCFD سے کم ہو کر 2022 میں 3,505 MMCFD ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گیس کی پیداوار 2012 میں 4,063 گئی ہے۔قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے مطالبہ کیا کہ 1 کلو واٹ سے اوپر کے تمام سولر سسٹمز پر نیٹ میٹرنگ کی اجازت دی جانی چاہیے؛ تاکہ گھریلو اور صنعتی صارفین کے لیے اپنی بجلی پیدا کرنے کے لیے حوصلہ افزاء ماحول پیدا کیا جا سکے؛ حت ٰی کہ اس کی الگت صرف 4 سینٹ فی کلو واٹ تک بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے ایک واضح سولر انرجی پالیسی کا اعالن کیا جانا چاہیے۔نائب صدر ایف پی سی سی آئی کے چیئرمین نے روشنی ڈالی کہ ملک میں 47,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صالحیت (APTMA)آصف انعام اور اپٹما موجود ہے؛ لیکن ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کی صالحیت صرف 28,000 میگاواٹ ہے۔

اس لیے، انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز بجلی کے صارفین پر بہت زیادہ مالی بوجھ ڈال رہے ہیں؛ چاہے وہ گھریلو، کمرشل یا صنعتی ہوں۔ آصف انعام نے مزید (IPPs) کہا کہ ابھی 17,000 میگاواٹ مزید بجلی کی پیداواری صالحیت پائپ الئن میں ہے اور دوسری طرف صنعتی شعبے میں بجلی کی کھپت میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی ہے؛ جس کی وجہ بجلی کا ناقابل برداشت ٹیرف ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم اس ضرورت سے زیادہ بجلی کو کہاں استعمال کریں گے، ایسے وقت میں کہ جب صنعتی پیداوار کم ہو رہی ہو؟یہ بات نہ صرف برآمد پر مبنی صنعتوں کے لیے درست ہے؛ بلکہ صنعتی مصنوعات کی ملکی کھپت پر بھی الگو ہوتی ہے۔مزید برآں،ایسا نہ ہو کہ درآمدی متبادل تیار کرنے کے بجائے ہم مستقبل میں وہ سامان بھی امپورٹ کرنا شروع کر دیں کہ جو ہم پہلے ہی ملک کے اندر بنا رہے عدیل صدیقی نے نشاندہی (HCCI)ہیں۔ سابق نائب صدر ایف پی سی سی آئی اور صدر حیدرآباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی کہ ہمارے پاس 55 ہزار میگاواٹ کا ونڈ پاور کوریڈور قدرت کی طرف سے موجود ہے جیسے ہم اب تک استعمال کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے بجلی کے بلوں کی باقاعدگی سے ادائیگی کرنے والے صارفین کو مزید نچوڑنے کے لیے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کو ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کی سختی سے مذمت کی۔ مزید برآں، انہوں نے بتایا کہ 80فیصد چوڑیوں کی صنعت بند ہو چکی ہے؛ کیونکہ وہ اتنی مہنگی بجلی برداشت نہیں کر پائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں