ایف پی سی سی آئی اور کاٹی انر جی میں ڈائیالگ زمین کی قیمتیں، پالیسی ریٹ سرفہرست رہے

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ نے کراچی کو ایک بار پھر کاروبار اور صنعت دوست شہر بنانے کے لیے ہاتھ ماللیا ہے اور متفقہ کو ششوں (KATI )انڈسٹری میں ایک اجتماعی و مظبوط آواز اٹھانے؛ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں تعاون اور ایف پی سی سی آئی کی متحدہ چھتری کے تحت پالیسی ساز فورمز تک رسائی شامل ہو نگی۔صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے بتایا ہے کہ کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے وفد سے اپنی پہلی اور تفصیلی مالقات میں انہوں نے کراچی کی صنعت کے مسائل اور خدشات پر تبادلہ خیال کیا ہے؛ جن میں بجلی اور گیس کے ٹیرف؛ صنعتی پالٹوں کی قیمتیں؛ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کلیدی پالیسی ریٹ سیکٹر کو نظر انداز کیے جانے کو سرفہرست مسائل کے طور پر شناخت (MSMEs )اور مائیکرو،سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز کیا گیا۔عاطف اکرام شیخ نے واضح کیا کہ ایف پی سی سی آئی مرکزی بینک کی 22 فیصد شرح سود کو صنعت و تجارت کے ہموار طریقے سے چلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے؛ کیونکہ کوئی بھی صنعت اتنے پرافٹ مارجن پر کام نہیں کر سکتی کہ جو اتنے مہنگے قرضوں کی ادائیگی کر سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کم از کم عالقائی سطح کے مقابلے میں پاکستان میں مسابقتی پالیسی ریٹ ہو۔صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے اس بات پر زور دیا کہ بجلی اور گیس کے نرخوں میں مسلسل اضافے کے متعدد راؤنڈزکی وجہ سے پاکستانی صنعتوں کے کاروبار کرنے کی الگت میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے اور ہم عالقائی ممالک کا مقابلہ نہیں کر پاتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر توانائی کی قیمتوں کو معقول نہیں بنایا گیا تویہ ہمیں کاروبار کرنے کی زیادہ الگت کی وجہ سے ایک مشکل صورتحال سے دوچار کر دے گا اور ایکسپورٹ مارکیٹس میں غیر مسابقتی قیمتیں؛ برآمدی آرڈرز میں کمی؛ وسیع تجارتی خسارے اور زرمبادلہ کے ذخائر پر مزید دباؤ کا باعث بنے گا۔ عاطف اکرام شیخ نے تجویز پیش کی کہ نان فائلرز کی اصطالح ختم کردی جائے کیونکہ یہ دنیا میں کہیں اور استعمال کے طور پر نافذ کر دیا (NTN )نمبر کو قومی ٹیکس نمبر (CNIC )نہیں ہوتی اور عملی طور پرکمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ جائے۔ صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے مزید کہا کہ حکومت کے پاس ٹیکس چوروں کی شناخت کے بہت سے راستے ہیں؛ مثال کے طور پر، یوٹیلیٹی بل، بین االقوامی سفر، لگژری گاڑیوں کی ملکیت، مہنگے اسکولوں کی فیسوں کی ادائیگی، وغیرہ۔سنیئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے کہا کہ صنعتی زونز میں ایک ایکڑ زمین کی قیمت 30 سے 35 کرورڑ روپے تک ہو گئی ہے اور اس قسم کے خرچ کی وجہ سے کوئی نئی صنعت قائم نہیں کی جا سکتی اور موجودہ صنعتوں کے توسیعی منصوبوں کے لیے بھی یہی مشکل درپیش ہے۔ثاقب فیاض مگوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کو اپنا سخت رویہ ترک کرنا چاہیے اور فوری طور پر فارما سیوٹیکل کے (DRAP )کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان مینوفیکچررز کے ساتھ ایک مشاورتی عمل شروع کریں تاکہ زندگی بچانے والی ادویات کی خوردہ قیمتوں کو اوپر کی طرف ال کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے بہت سی زندگی بچانے والی ادویات DRAP کر معقول بنایا جا سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ زبیر چھایا نے (KATI)مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں اور اس سے اسمگل شدہ ادویات کو فروغ مل رہا ہے۔ڈپٹی پیٹرن انچیف کاٹی اس بات کا اعادہ کیا کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی نمائندگی انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ صنعتی زون کی طرز پر کاٹیج انڈسٹری، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کے قیام کے لیے درحقیقت برآمدی صنعتوں کی سپالئی اور سورسنگ الئنوں SMEsچھوٹے صنعتی کلسٹر قائم کیے جائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کے وفد KATIکا ایک الزمی حصہ ہیں اور اس لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں انہیں زمین کی فراہمی میں سہولت فراہم کریں۔ کا اضافہ؛ جو کہ ٹیکس سال 2022E میں سیکشن (ITO 2001)7 نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس سے الگو ہواہے؛اس نے ایف بی آر کی نوٹس مینوفیکچرنگ پریکٹس میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور ٹیکس دہندگان، قانون کی پاسداری کرنے والے شہریوں کو راتوں کی نیندیں حرام کر دی گئی ہیں۔کاٹی کی قائم مقام صدر نگہت اعوان نے نشاندہی کی کہ ایف بی آر کی اصالحات پر کام ہو رہا ہے اور مجموعی طور پر کاروباری برادری کو خود کو اس اصالحاتی کمیٹی میں شامل کروانے کے لیے تیزی سے آگے بڑھنا چاہیے؛ تاکہ ان اصالحات میں کاروباری برادری کی مشاورت کو یقینی بنایا جا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں