آئل ریفائنری پالیسی 2021ء حکومتی توجہ کی منتظر

 پی ٹی آئی کے دور میں مجوزہ آئل ریفائنری پالیسی2021ء دو سال تک جمود کا شکار رہی تاہم اب آئل ریفائنریاں نئی حکومت کی جانب دیکھ رہی ہیں کہ وہ ریفائنری پالیسی کو منظور کرے تا کہ آئل ریفائننگ میں اضافہ اور ڈیزل کی قلت پر قابو پانے کی راہ ہموار ہو۔

سابق حکومت نے 2020ء میں ریفائنری پالیسی پر کام شروع کیا تھا مگر پھر یہ پالیسی پٹرولیم انڈسٹری اور کابینہ کمیٹی برائے توانائی کے درمیان شٹل کاک بن گئی۔ ذرائع کے مطابق کابینہ کے کچھ اراکین کو ایک ملکی ریفائنری کے ساتھ کچھ مسائل تھے جس کی وجہ سے کمیٹی پالیسی کی منظوری دینے میں ناکام رہی۔ اب ریفائنریز کی نظریں نئی حکومت پر ہیں کہ وہ پالیسی کی منظوری دے۔

ریفائنریوں کے مطابق موجودہ ریفائنریوں کی اپ گریڈیشن4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے ہوسکتی ہے۔ اس سے ان ریفائنریوں کی تیل صاف کرنے کی گنجائش ایک نئی ریفائنری کے مساوی بڑھ جائے گی۔ نئی ریفائنری لگانے پر 10ارب ڈالر لاگت آتی ہے۔ مقامی ریفائنریاں ملکی ضرورت کا 70فیصد ڈیزل اور 30فیصد پٹرول فراہم کرتی ہیں۔

ریفائننگ انڈسٹری کی جانب سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے سرمایہ کار دوست پالیسی کی ضرورت ہے۔ تاہم پچھلے دو مہینے سے پالیسی کی منظوری کی جانب کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریفائنریوں کی اپ گریڈیشن اور اس سیکٹر میں نئی سرمایہ کاری حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔

چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز پاکستان ریفائنری لمیٹڈ طارق کرمانی کا کہنا تھا کہ ملک کسی بھی آئل ریفائنری کی بندش کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ ریفائنری پالیسی سے موجودہ ریفائنریوں کی اپ گریڈیشن کیلیے 4 ارب ڈالر اور ایک نئی ریفائنری لگانے کے لیے 10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں