مصنوعی فائبر کے استعمال سے ٹیکسٹائل کی برآمدات کو 30 بلین ڈالر تک بڑھایا جا سکتاہے

ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر حنیف لاکھانی نے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ملک کی برآمدات، بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور کاروباری سہولیات کے فقدان کے باوجود اچھا پرفارم کرنے پر شاندار خراج تحسین پیش کیا ہے۔ کیونکہ کاروباری لاگت میں اضافے بشمول بجلی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں؛ پاکستانی کپاس کی پیداوار میں کمی؛ خام مال یعنی کپاس کی قیمت میں دوگنا اضافہ، گیس کی طویل اور بار بار بندش اور ٹیکس اور دیگر حکام کے ہاتھوں ہراسانی کے باوجود ٹیکسٹائل اندسٹر ی نے تر قی کی ہے۔ یہ بات انہو ں نے فیڈریشن ہاؤس کراچی میں صنعتکاروں اور سرکاری افسران کے ایک اعلیٰ سطحی اجتماع سے خطاب کر تے ہو ئے کہی۔ایف پی سی سی آئی کے ہیڈ آفس کے کوآرڈینیٹر سلطان رحمان نے کہا کہ نئی منڈیوں کی تلاش سے ٹیکسٹائل مینوفیکچررز اور ایکسپورٹرز کو کافی فائدہ ہو سکتا ہے؛ خاص طور پر افریقی اور سی آئی ایس (CIS)۔ انہوں نے کہا کہ کپڑے کی برآمدات پر اصولی طور پر پابندی ہونی چاہیے اور صرف اور صرف ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل مصنوعات کو برآمد کرنے کی اجازت دی جانی چا ہیے

۔ سلطان رحمان نے مزید کہا کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات میں ویلیو ایڈیشن پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو کافی بہتر بنا سکتی ہے اور بین الاقوامی منڈیوں میں پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کی زیادہ قیمتیں حاصل کرکے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو مستحکم کر سکتی ہے۔پاکستان کے ٹیکسٹائل کمشنر فاروق خان نے برآمد کنندگان سے اپنی امیدیں وابستہ کرتے ہو ئے کہاکہ اس سال ٹیکسٹائل کی برآمدات 20 ارب ڈالر سے تجاوز کر سکتی ہیں؛جو ان کی رائے میں انڈسٹری کے لیے ایک عظیم سنگ میل ثابت ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی صرف 5 فیصد ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل مصنوعات مصنوعی فا ئبراستعمال کر رہی ہیں اور پیداوار میں تیزی سے اضافہ کرنے کے لیے اس میں اضا فہ کیا جا ناچاہیے۔

وزارت تجارت کے ڈائریکٹر ٹیکسٹائل مدثر رضا نے کہا کہ ان کی وزارت اسکل ڈویلپمنٹ اور برآمد کنندگان کو نئی منڈیاں تلاش کرنے میں مدد کے ذریعے ٹیکسٹائل میں ویلیو ایڈ ڈ مصنوعات کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے۔انہو ں نے مزید کہاکہ پاکستان کو بین الاقوامی ٹیکسٹائل کاروبار میں اپنا حصہ بڑھانے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے اندر پاکستان کے مسلسل بڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کو کم کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت بین الاقوامی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں پاکستان کا حصہ محض 1.8 فیصد ہے۔ ممتاز تولیہ مینوفیکچرر اورایکسپورٹر ہارون شمسی نے کہا کہ ہمیں ٹیکسٹائل کے برآمدی اعدد و شمارپر گہری نظر رکھنی ہوگی؛ کیونکہ ان کی ایکسپورٹس میں اضافہ بنیادی طور پر بین الاقوامی سطح پر روئی کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے ہوا ہے اور ٹیکسٹائل کی برآمدات کے حجم میں حقیقی اضافہ بدقسمتی سے صرف 15-20 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ حنیف لاکھانی نے کہا کہ روئی کی قیمت 60 سینٹ سے بڑھ کر 1.2 ڈالر ہو گئی ہے اور صرف خام مال ہی ہماری کل پیداواری لاگت کا 60 فیصد بنتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہمیں دو محاذوں پر کام کرنا چاہیے: (i) دوسری فصلوں کی طرح کپاس کی امدادی قیمت مقرر کرکے ملکی کپاس کی پیداوار کو کم از کم پرانی سطح پر بحال کرنا (ii)دنیا بھر میں استعمال کیے جانے والے تمام اہم مصنوعی فائبرز کو اپنے خام مال کے ذرائع میں شامل کر کے خام مال کے ذرائع کو متنوع بنائیں؛اس مقصد کے حصول کے لیے اسٹیٹ بینک کی TERF اسکیم کی طرز پر نئی مشینری اور پلانٹس کی خریداری کے لیے بڑے پیمانے پر سبسڈایزڈ فنڈز کی ضرورت ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں