نہری پانی کے ضیاع سے سالانہ 4تا 10 ارب ڈالر نقصان

آزادی کے بعد سے اب تک پاکستان کی آبادی میں 5 گنا اضافہ ہوا ہے جب کہ تازہ پانی کی دستیابی 5 ہی گنا کم ہوگئی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مستقبل میں پاکستان کوشدید قلت آب کا سامنا کرنا پڑے گا، تاہم اس صورتحال سے کیسے نمٹا جائے اس ضمن میں کوئی واضح راستہ یا لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے ڈیموں کی تعمیر کا اعلان ضرور کیا جاتا ہے مگر یہ صرف ایک حل ہے اور وہ بھی فوری نہیں ہے۔ پانی کو اب اقتصادی نقطۂ نظر سے دیکھنے، اسے معیشت کا کلیدی شعبہ سمجھنے اور پھر اسی کے مطابق واٹر اکانومی کو منظم و مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔

بدقسمتی سے اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے کیوں کہ نہ تو ہم تازہ پانی کے مزید ذرائع یا مآخذ تخلیق کرسکتے ہیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ پانی کے استعمال میں کمی واقع ہوجائے۔

پاکستان میں زرعی شعبہ 90فیصد تازہ پانی استعمال کرتا ہے۔ کسانوں کو یہ پانی بلامعاوضہ دستیاب ہوتاہے مگر درحقیقت اس کی قیمت کاشتکاری کے دوران نصف پانی کے ضیاع کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے۔

دریائے سندھ کا نصف سے زائد پانی زرعی زمین تک نہیں پہنچ پاتا۔ مختلف تخمینوں کے مطابق ٹیل تک پانی پہنچنے کے دوران 30 سے 50 فیصد تک پانی ضایع ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کا معیشت پر بہت منفی اثر پڑ رہا ہے۔

موجودہ تخمینوں کے مطابق 50 فیصد زرعی پانی کے ضایع کرنے کا مطلب ہے کہ ہم ہر سال 4 سے 10 ارب ڈالرضایع کررہے ہیں۔ یہ اربوں ڈالر بچانے کے لیے آن فارم ( on-farm ) واٹر مینجمنٹ چند کروڑ خرچ کرنے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ واٹر اسمارٹ ایگریکلچرکو فروغ دینے اور اس میں سرمایہ کاری کرنے کی بھی سخت ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں