ٹیکس نیٹ میں اضافہ، حکومتوں کے لیے کارِ محال

پاکستان میں حکومتیں ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی کوششیں کرتی رہی ہیں، اس مقصد کے لیے مختلف ایمنسٹی اسکیمیں بھی دی جاتی رہیں مگر کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

آج بھی فعال ٹیکس دہندگان کی تعداد صرف 20 لاکھ (آبادی کا 1 فیصد ) ہے اور 80فیصد سے زائد ریونیو بالواسطہ ٹیکس کے ذریعے اکٹھا ہوتا ہے۔ ٹیکس نیٹ وسیع نہ ہونے کی تین اہم وجوہ ہیں۔ حکومتوں پر عوام کا عدم اعتماد، ٹیکس سسٹم میں عدم مساوات اور ٹیکس جمع کرنے کا قدیم نظام۔  ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے اہلکار کاروباری طبقے اور تاجروں کے ساتھ  پولیس جیسا درشت  رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اگر ان کا رویہ مہذبانہ ہو تو اس سے  لوگوں کا حکومت پر اعتماد قائم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

پاکستان کے موجودہ ٹیکس سسٹم کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ بااثر طبقے کی جانب سے غریب طبقے کے  لیے ہے۔ 80 فیصد بالواسطہ ٹیکس آمدن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اینڈ یوزر یعنی غریب لوگ ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ 15ہزار روپے ماہانہ کمانے والا فرد بھی انڈے، ڈبل روٹی، کپڑوں سمیت دیگر اشیاء پر وہی ٹیکس ادا کررہا ہے جو 15لاکھ روپے ماہانہ کمانے والا دے رہا ہے۔ آمدنی کے لحاظ سے ٹیکس لیا جاتا تو پاکستان  کی ٹیکس آمدن موجودہ سے بہت مختلف ہوتی۔

دوسری جانب ٹیکس ریبیٹ، ریفنڈز اور سبسڈی کی دیگر اقسام بھی  متمول طبقے کے لیے ہوتی ہیں غریبوں کے لیے نہیں۔ بجلی، گیس اور پیٹرول پر دی جانے والی سبسڈی متذکرہ بالا سبسڈیز کے آگے کچھ بھی نہیں۔  ٹیکس سے متعلق ادارے، کلیکشن سسٹم اور  متعلقہ بیوروکریسی بھی مسئلے کا حصہ ہے۔

ایف بی آر میں ایسی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے کہ  ٹیکس کلیکشن فنکشن  فسکل پالیسی اور پلاننگ، ٹیکس ریبیٹس؍  مستثنیات  وغیرہ سے  مختلف ہو۔ ٹیکس کی ادائیگی کے نظام اور طریقہ ہائے کار کو بھی آسان بنایا جانا چاہیے۔

ایف بی آر کے افسران بڑی مچھلیوں سے ٹیکس  کے حصول کے بجائے چھوٹے چھوٹے ٹیکس دہندگان پر وقت صرف کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، یا شائد بڑی مچھلیاں ان کی پہنچ سے دور ہوتی ہیں۔ یہ بھی تخمینہ لگایا جانا چاہیے کہ ایف بی آر افسران  چھوٹے ٹیکس دہندگان پر کتنا وقت صرف کرتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں