ذیابیطس کی مختلف اقسام کون سی ہیں؟

ذیابیطس جسے عرف عام میں ’شوگر‘ کی بیماری کہا جاتا ہے، عموماً دو اقسام ٹائپ 1 اور ٹائپ 2 میں بانٹی جاتی ہے تاہم اب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے پانچ مختلف گروپ ہیں جن میں سے ہر ایک کے لیے الگ علاج ممکن ہے۔

سویڈین اور فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ انھوں نے جس زیادہ پیچیدہ تصویر سے پردہ اٹھایا ہے وہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ان کی بیماری کے لحاظ سے دوا کے انتخاب میں مدد دے گی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق مستقبل میں ذیابیطس کے مریضوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے انتہائی اہم ہے لیکن طریقہ علاج میں تبدیلی فوراً نہیں آئے گی۔ دنیا میں تقریباً ہر 11واں بالغ فرد ذیابیطس سے متاثر ہے اور اسے دل کا دورہ پڑنے، فالج ہونے، بصارت متاثر ہونے یا گردے ناکارہ ہونے کا خطرہ موجود ہے۔

ٹائپ 1 ذیابیطس: یہ نظامِ مدافعت کی بیماری ہے۔ یہ انسانی جسم کی انسولین فیکٹریوں (بیٹا سیلز) پر حملہ کرتی ہے تاکہ جسم میں یہ ہارمون اتنی مقدار میں موجود نہ رہ سکے کہ وہ خون میں شکر کی مقدار کو کنٹرول کر سکے۔

ٹائپ 2 ذیابیطس: اس کا تعلق عموماً طرزِ زندگی سے جوڑا جاتا ہے کیونکہ اس میں جسم میں جمع چربی انسولین کے کام کرنے کے طریقے کو متاثر کرتی ہے۔

سویڈن کی لونڈ یونیورسٹی کے ذیابیطس مرکز اور فن لینڈ کے انسٹیٹیوٹ آف مولیکیولر میڈیسن کی مشترکہ تحقیق کے دوران 14775 مریضوں کے خون کے نمونوں کا مفصل جائزہ لیا گیا۔ اس تحقیق کے نتائج طبی رسالے لینسٹ میں شائع ہوئے ہیں جن کے مطابق ان مریضوں کو پانچ گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

گروپ 1: شدید ’آٹو امیون‘ ذیابیطس روایتی ٹائپ 1 جیسی ہے۔ یہ مریض کو اس وقت نشانہ بناتی ہے جب وہ جوان ہوتا ہے اور بظاہر صحت مند بھی لیکن یہ بیماری اس کے جسم میں مدافعتی نظام کو نشانہ بنا کر انسولین پیدا نہیں ہونے دیتی۔

گروپ 2: شدید انسولین کی کمی والی ذیابیطس کے مریض ابتدائی طور پر گروپ 1 کے مریضوں جیسے ہی لگتے ہیں۔ وہ جوان ہوتے ہیں، ان کا وزن مناسب ہوتا ہے لیکن جسم میں مدافعتی نظام ٹھیک ہونے کے باوجود انسولین پیدا نہیں ہوتی۔

گروپ 3: اس قسم کی ذیابیطس کے مریضوں کا وزن زیادہ ہوتا ہے اور ان کے جسم میں اگرچہ انسولین بن رہی ہوتی ہے لیکن وہ اثر نہیں کرتی۔

گروپ 4: موٹاپے سے متعلقہ ذیابیطس کا شکار وہ افراد ہوتے ہیں جن کا وزن بہت زیادہ ہوتا ہے لیکن میٹابولزم کے حوالے سے وہ تیسرے گروپ کے قریب تر ہوتے ہیں۔

گروپ 5: عمر سے متعلقہ ذیابیطس کے مریضوں میں بیماری کی علامات دیگر گروپوں کے مقابلے میں زیادہ عمر میں ظاہر ہوتی ہیں اور ان کی بیماری بھی زیادہ شدید نہیں ہوتی۔

اس تحقیق میں شامل پروفیسر لیف گروپ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ انتہائی اہم ہے اور ہم مخصوص ادویات کی جانب ایک حقیقی قدم اٹھا رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا ہے کہ تین شدید اقسام کو دو نرم اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیز ادویات سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

گروپ 2 کے مریضوں کو موجودہ درجہ بندی کے تحت ٹائپ 2 ذیابیطس کا مریض قرار دیا جاتا ہے تاہم نئی تحقیق کے مطابق ان کی بیماری کا تعلق بیٹا سیلز سے ہے نہ کہ ان کے زیادہ موٹے ہونے سے اور اس لیے ان کا علاج ٹائپ 1 کے مریضوں کی طرز پر ہونا چاہیے۔

اسی طرح گروپ 2 میں آنے والے مریضوں میں بینائی جانے کا خدشہ باقی مریضوں سے کہیں زیادہ ہے تو گروپ 3 کے مریضوں کے گردے ناکارہ ہونے کے امکانات سب سے زیادہ ہوں گے۔

امپیریئل کالج لندن سے وابستہ ڈاکٹر وکٹوریہ سالم کا کہنا ہے کہ یہ یقیناً ذیابیطس کے بطور مرض تصور کے بارے میں مستقبل کی بات ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس تحقیق سے علاج کا موجودہ طریقہ نہیں بدلے گا۔ان کے مطابق، ’’یہ تحقیق سیکنڈے نیوین آبادی پر کی گئی جبکہ ذیابیطس دنیا بھر میں مختلف ہے جیسے کہ جنوبی ایشیائی افراد میں اس کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔

کیٹاگری میں : صحت

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں