اسموگ سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر

گزشتہ برسوں کی طرح اس مرتبہ بھی اسموگ کے اثرات کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ ان دنوں میں صبح سویرے اور شام کے وقت ہر طرف دھند چھا جاتی ہے۔ حد نگاہ خطرناک حد تک کم ہو جاتی ہے۔ آج کل ہر دوسرا مریض سر درد، ناک سے پانی بہنا اور خارش، سانس میں رکاوٹ، ذرا سے چلنے سے سانس کا پھول جانا، جسم میں دردیں، جسم پہ خارش اور دانے کی علامات کا شکار ہے۔

اکثر مریض کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب پچھلے ہفتے سے اینٹی بائیوٹک ادویات بھی لی ہیں، الرجی دور کرنے والی بھی استعمال کی ہیں۔ مگر کوئی دوا کارگر ثابت نہ ہوئی۔ یہ سب شاخسانہ ہے آج کل زیادہ تر لاہور میں چھائی ہوئی اسموگ کا جو آلودہ دھند ہوتی ہے۔

بارش نہ ہونے کی وجہ سے خشک سردی ہے جس کی وجہ سے گلے کے امراض میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اسموگ میں اضافے کی وجہ سے لاہور کی فضاؤں میں سانس لینا دوبھر ہوتا جا رہا ہے۔ سانس کی بیماری پھیلتی جا رہی ہے۔ دمہ کے مریض اس وجہ سے سخت مشکل میں ہیں۔

اسموگ کیا ہے؟ کیوں ہوتی ہے؟ کیسے ہوتی ہے؟ اس کے صحت پر کیا اثرات ہوتے ہیں اور ان سے کیسے بچاجا سکتاہے؟

آلودگی اسموگ کا بڑا سبب ہے۔ جوں ہی درجہ حرارت میں کمی ہوتی ہے تو گرم ہوا اوپر جانے کی بجائے فضا میں معلق ہو جاتی ہے۔ اور اس میں دھواں ، بھوسے اور کوڑا کرکٹ جلنے سے پیدا ہونے والے ذرات، گاڑیوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے دھوئیں سے پیدا ہونے والی گیسز اور ذرات فضا میںمعلق ہو جاتے ہیں، جس سے فضا نیچے سے اوپر تک آلودہ نظر آتی ہے۔

صبح سویرے تو حد نگاہ تک فضا آلودہ ذرات سے معلق نظر آتی ہے۔ ہوا میں مضر صحت گیس نائٹریٹ، کاربن ڈائی آکسائیڈ، کاربن مونو آکسائیڈ اور بیماریاں پھیلانے والے جراثیم ہوتے ہیں۔

اگرچہ لاہور اور دوسرے شہروں کی فضا پہلے سے ہی کافی آلودہ ہے۔ لیکن اکتوبر کے آخر میں اور نومبر کے شروع میں اسموگ شروع ہو جاتی ہے تو یہ فضا آلودہ ہونے کے ساتھ صحت کے لیے نہایت خطرناک بھی ہو جاتی ہے۔

اس آلودہ فضا میں سانس لینا دو بھر ہو جاتا ہے۔ پچھلے چند برسوں سے اسموگ میں قابلِ قدر اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے شاید ہی کسی نے اس کا نام سنا ہو۔

2016 میں اسموگ سے پاکستان اور ہندوستان کے بڑے شہر متاثر ہوئے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹروں کے مطابق راولپنڈی، لاہور، کراچی اور پشاور دنیا کے 30 آلودہ ترین شہروں میں شامل ہیں۔ اسموگ کی وجہ سے نہ صرف ٹریفک میں کمی ہوئی بلکہ کئی پروازیں بھی منسوخ ہوئیں۔

ہندوستان کے کئی شہر بھی اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ مختلف حکومتوں نے اپنی طرف سے اسموگ سے بچاؤ کے لیے اقدامات کیے ہیں جو نہ کافی ثابت ہوئے ہیں۔ سڑکوں میں ٹریفک کم ہونے سے بھی اسموگ کی شدت میں کمی آ سکتی ہے۔

اسموگ میں چونکہ مضر صحت ذرات ہوتے ہیں، گیس ہوتی ہے، اس لیے اس میں سانس لینا مشکل ہو جاتا ہ، آنکھوں کے مسائل بھی شروع ہو جاتے ہیں۔ چیسٹ انفیکشن کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔ آلودہ فضا میں سانس لینے سے طبیعت مضمحل رہتی ہے۔ کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ ہر وقت سر میں درد ہوتا ہے۔ آنکھوں میںسخت جلن ہوتی ہے۔

آنکھوں اور ناک سے پانی جاری رہتا ہے۔ جسم پر سرخ دانے نمودار ہوجاتے ہیں۔ جب مریض ان تکالیف کا ذکر کرتے ہیں تو ڈاکٹر مختلف قسم کی دوائیاں بشمول اینٹی بائیوٹک تجویز کرتے ہیں لیکن یہ دوائیں کچھ کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ اسموگ کے ساتھ ساتھ جونہی سردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں ، بڑوں اور بوڑھوں میں چیسٹ انفیکشن اور نمونیہ جیسے خطر ناک امراض کا سامنا ہو سکتا ہے۔

اسموگ والی آلودہ فضا میں سانس لینے سے مضر ذرات اور سانس کے ذریعے پھیلنے والی بیماریوں کے جراثیم جسم کے اندر جا کر بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ آلودہ فضا میں سانس لینا کئی سگریٹیں پھونکنے کے برابر ہے کیونکہ دونوں کے مضر اثرات تقریباً ایک جیسے ہوتے ہیں۔ آبادی میں بے پناہ اضافے، جگہ جگہ فیکٹریوں کی بھرمار اور ان سے نکلنے والے دھوئیں کی وجہ سے سموگ میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

لاہور شہروں میں درختوں کی کٹائی اور مضافات میں جنگلوں کے خاتمے کی وجہ سے بھی اسموگ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حاملہ عورتوں کو اسموگ کے دنوں میں گھر سے باہر نکلنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ اس سے بچے کی وقت سے پہلے پیدائش کے ساتھ نوزائیدہ کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ اسموگ اور سردی میں مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس کے خطرات اور بد اثرات سے بچاجا سکتاہے۔

٭اسموگ کے دوران اگر Visibility خطرناک حد تک کم ہو تو اس دوران ڈرائیونگ سے پرہیز کیا جائے۔

٭گاڑیوں میں اسپیشل اسموگ لائیٹس کا لگانا ضروری ہے۔

٭اسموگ کے دنوں میں منہ اور ناک پر ماسک کا استعمال آلودگی سے بچاتا ہے۔ آنکھوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کالے شیشے کی عینک استعمال کریں۔ ماسک کا استعمال نہ صرف آپ کو سموگ سے بچائے گا بلکہ اس سے آپ کورونا سے بھی محفوظ رہیں گے۔

٭صبح سویرے گرم پانی میں ایک چمچ شہد ڈال کر چائے کی طرح چسکیاں لے کر پیئں۔ اس سے آپ کے گلے کے انفیکشن سے محفوظ رہیں گے۔

٭جب بھی باہر سے آئیں تو آنکھوں اور چہروں کو ٹھنڈے پانی سے دھوئیں۔

٭اسمو گ کے دنوں میں مچھلی کے تیل کے کیپسول ضرور لے لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صبح سویرے زیتون کے تیل کا ایک چمچ لے لیں تو اس سے آپ کا نظام تنفس آلودگی سے بچا رہے گا۔ اسموگ کی وجہ سے ہونے والی علامات میں مختلف قسم کی اینٹی بایوٹک اور دواؤں کے بے جا استعمال کاکوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ادویات کے بے جا اور غیر ضروری استعمال سے بچیں۔

٭صبح شام لیمن گراس قہوہ استعمال کریں۔

٭سردیوں میں اسموگ کے اثرات کم کرنے کے لیے ڈرائی فروٹ استعمال کریں۔ گرما گرم چائے کے ساتھ میوے والا گرما گرم سوجی کا حلوہ بھی صحت کے لیے مفید ہے۔

٭اسموگ کے دوران اور سردیوں میں خاص طور پر چھوٹے بچوں کو اچھی طرح کور کر کے رکھیں کیونکہ سردی کے اثرات بچوں پہ زیادہ ہوتے ہیں۔

٭حکومت کے لیے ضروری کہ وہ دھواں اور آلودگی کنٹرول کے لیے اسموگ کمیشن 2017ء کی سفارشات کے مطابق اقدامات کرے، تا کہ اسموگ کے خطرات سے مناسب حد تک بچا جا سکے۔ نومبر اور دسمبر کے مہینے میں فیکٹریوں کو پابند کیا جائے کہ وہ ان سفارشات پر عمل کریں۔ اینٹوں کے بھٹوں کو بھی دو ماہ کے لیے بند رکھا جانا چاہیے۔

٭اسموگ کے خطرے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔ زیادہ درخت لگانے سے فضا میں الودگی کم ہو گی اور اسموگ میں بھی کمی ہوگی۔

٭عوام الناس کی رہنمائی کے لیے ضروری ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر اسموگ کے خطرات سے بچاؤکے بارے میں آگاہی پیدا کی جائے اور جابجا کوڑا اور فصلوں کا بھوسہ چلانے پر پابندی لگائی جائے۔ اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔

فصلوں کا بھوسہ جلانے سے سموگ کے ساتھ حد نگاہ صفر ہو جاتی ہے۔ جس سے جان لیوا حادثات ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں موٹروے کے آس پاس فصلوں کی باقیات جلانے کے باعث کئی جاں لیوا حادثات ثابت ہوئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں