گیس کی قیمت بڑھنے اور عدم فراہمی پر صنعتوں کی ہڑتال، ایکسپورٹ روکنے کی دھمکی

صنعت کاروں نے گیس کی قیمت بڑھنے اور عدم فراہمی کے خلاف پیر کو شہر بھر میں ہڑتال کی اور صنعتوں کو تالے ڈال دیئے اور مسائل حل نہ ہونے پر صنعتوں کی بندش میں توسیع اور ایکسپورٹ بند کرنے کی دھمکی دے دی۔

آل انڈسٹریل آلائنس کی جانب سے اعلان کردہ ہڑتال پر آج پیر کو کراچی سمیت سندھ اور بلوچستان کی صنعتیں بند کردی گئیں، فیکٹریوں کے باہر سیاہ بنیرز آویزاں کردیے گئے جن پر نعرے درج تھے، ایکسپورٹ انڈسٹری نے بھی اپنی فیکٹریاں بند رکھیں۔

اس حوالے سے صنعت کاروں میں سائٹ ایسوسی ایشن میں پریس کانفرنس بھی کی جس میں آل انڈسٹریل آلائنس کے چیف کوآرڈی نیٹر  جاوید بلوانی، نکاٹی کے صدر فیصل معز، سائٹ ایسوسی ایشن کے صدر کامران عربی اور دیگر موجود تھے۔ صنعت کاروں نے  حکومت کو خبردار کیا کہ گیس ٹیرف کا مسئلہ حل نہ کیا گیا تو وہ ہڑتال کے دورانیے کو ایک ہفتے تک توسیع دے دیں گے اور صنعتیں بند کرنے کے ساتھ ایکسپورٹ بھی روک دی جائے گی۔

جاوید بلوانی نے کہا کہ حکومت ہمارے ساتھ بیٹھے اور بات کرے، اگر آئی ایم ایف کے کہنے پر گیس کی سبسڈی ختم کرنی ہے تو پہلے فرٹیلائزر اور آئی پی پیز کو دی جانے والے کراس سبسڈی ختم کی جائے، آج ہم نے صرف دکھانے کے لیے کراچی کی تمام صنعتیں بند کی ہیں اور تمام 11 ایسوسی ایشنز میں آج ایکسپورٹ اور پیداوار بند رکھی گئی ہے لیکن اگر حکومت نے ہمارے مطالبات نہ مانے تو پھر ہم مشاورت کے بعد ایک ہفتے کی مسلسل ہڑتال کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اتنی مہنگی گیس کے لیے انڈسٹری کسی صورت نہیں چل سکے گی، اگر گیس کی قیمت پر نظر ثانی نہ ہوئی تو صنعتیں اس پیداواری لاگت پر نہیں چلا سکیں گے اور ایکسپورٹ ختم ہوکر رہ جائے گی کیونکہ پاکستان کی مجموعی ایکسپورٹ میں کراچی کا حصہ 60 فیصد سے بھی زائد ہے۔

انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ تاجر برادری حکومت سے گیس نرخ کو 1350 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو تک لانے کی اپیل کرتی ہے جس کا تعین اوگرا نے گیس کی 100 فیصد قیمت کے طور پر کیا ہے اور اس میں ایس ایس جی سی کا تقریباً 22 فیصد منافع بھی شامل ہے جبکہ صنعتیں اوگرا کے طے کردہ نرخ پر ادائیگی کے لیے تیار ہیں۔

تمام صنعت کاروں نے گیس کی قیمت میں اضافے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت نے گیس کی قیمت کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہ کیا تو پھر مزید سخت لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

جاوید بلوانی نے کہا کہ المیہ تو یہ ہے کہ 20 کروڑ کی سبسڈی لینے والوں نے ایک یونٹ نہیں بنایا، گیس کی اسمگلنگ کو بند کرنے کا مطالبہ ہم نے کیا، وسطی ایشیاء ممالک کو گیس دی جارہی ہے، دنیا بھر میں گیس لائن لاسز 1 سے 2 فیصد ہے مگر ہمارے ملک میں لائن لاس 40 فیصد ہے، لائن لاسز کے پیسے بھی یہ ہم سے وصول کررہے ہیں، ہم مسئلے کے حل کے لیے صرف حکومت کے فیصلہ ساز لوگوں سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ صنعت کاروں کا کہنا تھا کہ کراچی سمیت سندھ اور بلوچستان کے صنعت کار جاوید بلوانی کی قیادت میں متحد ہیں، حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ اگر صنعتوں کو مہنگی گیس ملی تو پیداواری لاگت بڑھے گی جس سے ایکسپورٹ کم ہوگی اور زرمبادلہ ملک میں کم آئے گا اس لیے حکومت فوری توجہ دے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں