عوام مہنگائی اور ٹیکسوں کے دو پارٹوں میں پس رہی ہے ،میاں زاہد

مہنگائی سے پریشان ملازمین کام میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں،صدر کراچی انڈسٹریل الائنس

 نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملکی عوام مہنگائی اور ٹیکسوں کے دو پاٹوں میں پس رہی ہے جنھیں جلد ازجلد ریلیف دیا جائے۔ تنخواہ دار طبقے کو ان دہری مصیبتوں کیعلاوہ دیگرمسائل بھی درپیش ہیں جنھیں حل کیاجائے ورنہ ملک کومزید سماجی اور معاشی نقصان اٹھانا پڑے گا۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اخراجات مسلسل بڑھ رہے ہیں جبکہ تنخواہوں میں اس تناسب سے اضافہ نہیں ہورہا ہے اس لئے وہ سرکاری اورنجی ادارے جہاں کام کرنے کو کبھی خوش قسمتی تصورکیاجاتا تھا اب ان میں بھی کام کرنا مشکل ہورہا ہے۔

قلیل تنخواہوں سے ملازمین کے اخراجات پورے نہیں ہورہے ہیں جسکی وجہ سے وہ پریشان ہیں جس سے انکی کارکردگی متاثر ہورہی ہے جس کے اثرات سے ادارے بھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔

میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ جن ملازمین کا بس چلتا ہے وہ نوکریاں چھوڑ کرزراعت اور پراپرٹی کے شعبے کا رخ کررہے ہیں جس سے سرکاری ادارے اور نجی کمپنیاں متاثر ہورہی ہیں اورجو یہ آپشن اختیار کرنے سے قاصر ہیں انکی حالت ناکافی تنخواہ کی وجہ سے دیدنی ہے۔ پانچ لاکھ تنخواہ لینے والوں کواب اٹھارہ فیصد جبکہ دس لاکھ تنخواہ لینے والوں کواب چھبیس فیصد سے زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑرہا ہے جبکہ ہزاروں میں تنخواہ لینے والوں کو ضروری اخراجات کے لئے بھی قرضے لینے یا گھریلواشیاء بیچنی پڑرہی ہیں۔

عوام کو تنخواہوں پرٹیکس ادا کرنے کے ساتھ سولہ سے اٹھارہ فیصد سیلز ٹیکس، پٹرول پر پیٹرولیم لیوی، بجلی، گیس اورموبائل کیعلاوہ ہر چیز پر بھاری ٹیکس ادا کرنا پڑرہا ہے۔ اس کیعلاوہ لوگوں کو پرائیویٹ سکول، پرائیویٹ ہسپتال، نجی سیکورٹی، ذاتی ٹرانسپورٹ اور پانی تک خریدنا پڑرہا ہے جو افسوسناک ہے۔ ٹیکس دھندگان کوبھاری ادائیگیوں کے باوجود ریاست کی طرف سے جواب میں کچھ نہیں ملتا۔

جبکہ دوسری طرف اشرافیہ چار ہزار ارب روپے کا ٹیکس بچا کر اللے تللے کر رہی ہے اور اربوں روپے کی مراعات بھی لے رہی ہے۔ غریب عوام کے دوکروڑ سے زیادہ بچے سکول نہیں جاتے، چالیس فیصد بچے غذائی کمی کا شکار ہیں۔ حکومت کے مسلسل بڑھتے ہوئے اخراجات اسکیعلاوہ ہیں۔ انہی حالات کی وجہ سے مزدوروں کیعلاوہ ماہرین بھی اچھے مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک نوکریوں کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان حالات میں حکومت کو فوری طور پر ناکام سرکاری اداروں کو پرائیویٹائز کر کے کھربوں روپے کے نقصانات سے جان چھڑوانی چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں