ٹیکس بیس میں اضافے کے بغیر معاشی استحکام نا ممکن ہے،میاں زاہد حسین

غیر دستاویزی معیشت ختم نہ ہوئی تو ملک دیوالیہ ہو جائے گا،صدر کراچی انڈسٹریل الائنس

نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان کا ٹیکس سسٹم انتہائی غیر منصفانہ اور زمینی حقائق سے متصادم ہے جو تقریباً تمام مسائل کی بنیاد ہے، پاکستان میں سیلز ٹیکس، کسٹمز ڈیوٹی اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 64 فیصد جبکہ ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں صرف 36 فیصد ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں، یہ سسٹم غریب اور امیر دونوں سے یکساں شرح سے ٹیکس وصول کرتا ہے جس کی وجہ سے امیر مزید امیر اورغریب، غریب تر ہو رہے ہیں اور پاکستان میں 40 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں، ٹیکس سسٹم میں ڈائریکٹ ٹیکسوں کا حصہ بڑھائے بغیر ملکی معیشت کو استحکام دینا ناممکن ہے، آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے عالمی اداروں کی جانب سے بار بار پاکستان کے ٹیکس نظام کو متوازن بنانے کے مطالبے کا نوٹس لیا جائے۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مالی خسارے، مہنگائی، ادائیگیوں کے عدم توازن، سرمایہ کاری اور بچت کے نہ ہونے کی بنیادی وجہ پاکستان کا ٹیکس سسٹم ہے جو انتہائی ظالمانہ ہے اور اس کا سارا فوکس عوام کونچوڑنے پر مرکوز ہے۔ ٹیکس سسٹم غریب عوام کو کوئی فائدہ پہنچانے کے بجائے مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے جو اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ آئی ایم ایف کی سربراہ کو اس سلسلے میں بیان جاری کرنا پڑتا ہے۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ آئی ایم ایف کی سربراہ نے زور دے کر کہا ہے کہ امیروں سے ٹیکس وصول کیا جائے اورغریبوں کوسبسڈی اوردیگر فلاحی اقدامات کے زریعے تحفظ دیا جائے جبکہ وہ اس سے قبل فروری میں بھی یہ کہہ چکی ہیں مگر ان کی بات کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف بار بار ملک کے بنیادی مسئلے کو اجاگر کر رہا ہے مگر ہمارے پالیسی ساز اس سلسلے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔

آئی ایم ایف کے مشوروں کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیا جاتا ہے ورنہ بجٹ میں ایسے اقدامات نہ کئے جاتے جوعوام کو دستاویزی معیشت سے دور رکھنے کا سبب بنتے ہیں۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ ٹیکس بیس کو صرف بیانات میں ہی بڑھایا جاتا ہے ورنہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 8.6 فیصد نہ ہوتا اورکئی سال سے مالیاتی خسارہ سات فیصد نہ ہوتا، اس وقت پاکستان گنجائش کے مقابلے میں چار ہزار ارب روپے کم ٹیکس وصول کرتا ہے جب کہ معیشت کا نصف سے زیادہ حصہ غیر دستاویزی ہے۔

مختلف اہم شعبوں سے ٹیکس وصول نہ کرنے جبکہ دیگر کئی شعبوں سے کم ٹیکس وصول کرنے کی وجہ سے ہی پاکستان کو ہر وقت کشکول اٹھانا پڑتا ہے اور ہر دو تین سال بعد ایک بحران آ کرعوام کو برباد کرنے لگتا ہے۔ اب کشکول پالیسی کو جاری رکھنا ناممکن ہو گیا ہے کیونکہ عالمی ادارے اور دوست ممالک بھی پاکستان سے بے زار ہو چکے ہیں اور اگر اب بھی ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا نہ کیا گیا تو اسے دیوالیہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں