حکومت ایکسپورٹ سیکٹر کی بقا کیلیے مثبت اقدامات کرے، ٹی ایم اے

  پیداواری صنعتوں کی پیداوار میں25فیصد کی کمی اور گھٹتی ہوئی برآمدی آمدنی بڑی صنعتوں کی سست روی اور کارکنوں کی بڑے پیمانے پر بیروزگاری کا باعث بن گئی ہے۔

ٹاولز ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے معیشت کی موجودہ صورتحال کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت وقتاً فوقتاً ٹیکسٹائل سیکٹر کیلیے ناگوار فیصلے کرتی رہی ہے جس سے ملک میں معاشی سرگرمیوں کے ساتھ سیاسی عدم استحکام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے جس سے ملک کی بیمار معیشت اور برآمدات میں کمی واقع ہوئی ہے۔

بین الاقوامی مارکیٹ سے خریدار پاکستان کے مینوفیکچررز کے ساتھ آرڈر دینے سے گریزاں ہیں کیونکہ ملک میں سیاسی انتشار پھیل رہا ہے۔ ہماری حکومتوں کو ایکسپورٹ سیکٹر کی بقاکے لیے فوری طور پر مثبت اقدامات کرنے چاہئیں۔

ٹی ایم اے کا کہنا ہے کہ زیرو ریٹنگ کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے اور اربوں روپے ایف بی آر کے پاس پھنسے ہوئے ہیں جس سے برآمد کنندگان کے لیے مالی بحران پیدا ہو رہا ہے۔

برآمدی شعبے میں 90 فیصد پیداوار برآمد کی جا رہی ہے جبکہ صرف 10 فیصد مقامی طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ سیلز ٹیکس کی وصولی اور رقم کی واپسی کا یہ وسیع سلسلہ سیلز ٹیکس کی وصولی کے لیے کام کرتا ہے، اور اس کے نتیجے میں برآمد کنندگان کو تاخیر، موخر اور زیر التواء رقم کی واپسی کی صورت میں نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

یہی بنیادی وجہ ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری ایس آر او 1125 کی بحالی چاہتی ہے یعنی ٹیکسٹائل کی پوری ویلیو چین کے لیے کوئی ادائیگی نہیں کوئی ریفنڈ نہیں جو اس صنعت کی اضافی ورکنگ کیپیٹل کی ضرورت فراہم کرے گا۔

ٹی ایم اے کا کہنا ہے کہ لوکل ٹیکسز اینڈ لیویز (DLTL) اسکیم کی خرابی 30جون 2021 کو ختم ہوگئی اور تقریباً دو سال گزرنے کے بعد بھی حکومت نے اس اسکیم کو جاری رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا برآمدی شعبے کے لیے علاقائی مسابقتی توانائی ٹیرف (RCET) کا بند ہونا ایک اور بڑا عنصر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں