کراچی چیمبر کو تجارتی وفد بنگلہ دیش بھیجنے کی دعوت

بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمشنر ایس ایم محبوب العالم نے تجارت اور سرمایہ کاری میں تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کراچی چیمبر سے کہا ہے کہ وہ دنیا کی 35 ویں بڑی معیشت میں تجارت و سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے کے لیے ایک تجارتی وفد بنگلہ دیش بھیجے جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خصوصی مراعات کے ساتھ تمام مطلوبہ سہولیات اور انفرااسٹرکچر فراہم کررہا ہے۔بنگلہ دیش بھر میں 100 خصوصی اقتصادی زونز قائم کیے جا رہے ہیں جن کا مقصد صنعتکاری، روزگار کے مواقع پیدا کرنا، برآمدات و سرمایہ کاری کو فروغ اور اقتصادی ترقی کو تیز کرنا ہے۔ہمارے پاس مل کر کام کرنے کی بہت زیادہ صلاحیت ہے لہٰذا ہمیں دونوں برادر ممالک کی معاشی خوشحالی کے لیے اجتماعی کوششیں کرنا ہوں گی۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا

۔اس موقع پر کے سی سی آئی کے صدر محمد طارق یوسف، سینئر نائب صدر توصیف احمد، چیئرمین ڈپلومیٹک مشنز اینڈ ایمبیسیز لائژن سب کمیٹی ضیاء العارفین اور کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔ڈپٹی ہائی کمشنر نے کہا کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان بہترین اقتصادی تعلقات رہے ہیں جن میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ توسیع ہوتی رہی ہے تاہم بعض درپیش چیلنجوں کو مشترکہ کوششوں کے ذریعے مؤثر طریقے سے نمٹنا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو اس کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر صفر تھے اور زیادہ تر غذائی اشیاء درآمد کی جا رہی تھیں لیکن اب اس ملک کے پاس 48 ارب ڈالر کے متاثر کن زرمبادلہ کے ذخائر ہیں اور وہ خوراک کی کوئی چیز درآمد نہیں کر رہا چونکہ آبادی کے لیے تمام اشیائے خورونوش ملک کے اندر پیدا ہو رہی ہیں جس میں ہم خود کفیل ہو گئے ہیں۔وژن 2041 کے تحت بنگلہ دیش ایک ترقی یافتہ اور اسمارٹ ملک بننے کا ارادہ رکھتا ہے

۔محبوب العالم نے بتایا کہ جاپان، چین، بھارت اور جنوبی کوریا کے سرمایہ کار پہلے ہی بنگلہ دیش میں پیداواری یونٹس قائم کر چکے ہیں۔اس لیے پاکستانی تاجر برادری کو بھی اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے آگے آنا چاہیے۔بنگلہ دیش ایک ایسا ملک ہے جو باالخصوص غیر ملکی سرمایہ کاروں کو درپیش کسی بھی مسئلے کے فوری حل پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور ایسے زیادہ تر مسائل صرف ایک ہی نشست میں حل ہو جاتے ہیں جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے بہت حوصلہ افزا ہے۔ہم معیشت کی بہتری اور روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنے کے لیے اپنے غیر ملکی دوستوں کو ہمیشہ خوش آمدید کہتے ہیں۔انہوں نے ویزوں کے اجراء میں تاخیر پر اظہار تشویش کے جواب میں کہا کہ ان کی پوری کوشش ہے کہ تاجر برادری کو جلد از جلد ویزے جاری کیے جائیں تاہم کسی بھی فرد کو درپیش تاخیر خالصتاً طریقہ کار کی وجہ سے ہوتی ہے جن پر عمل کرنا پڑتا ہے جبکہ بنگلہ دیش کے ساتھ کاروبار کرنے والوں کو اولین ترجیح پر کاروباری ویزا جاری کیا جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ بنگلہ دیش نے خاص طور پر اپنی شرح خواندگی کو بہتر بنانے پر مرکوز کی ہوئی ہے اور یہ بلاشبہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ اب پرائمری اسکولوں میں داخلہ 100 فیصد تک پہنچ گیا ہے

۔ہم لاکھوں غریب لوگوں کو مفت کتابیں اور وظائف فراہم کرتے ہیں تاکہ ہر ایک کو تعلیم تک رسائی حاصل ہو۔1971 میں صرف 6 یونیورسٹیاں تھیں لیکن اب بنگلہ دیش میں 108 یونیورسٹیاں اور 120 میڈیکل کالج ہیں۔قبل ازیں کے سی سی آئی کے صدر محمد طارق یوسف نے بنگلہ دیشی ڈپٹی ہائی کمشنر کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان وسیع تجارتی امکانات کے باوجود تجارتی حجم اپنی صلاحیت سے کم ہے۔جیسا کہ رواں مالی سال کے 6 ماہ کے دوران بنگلہ دیش کو پاکستان کی برآمدات تقریباً 480 ملین ڈالر پر جمود کا شکار رہی جو گزشتہ سال 483 ملین ڈالر تھی۔2003 میں شروع ہونے والے پاک بنگلہ دیش فری ٹریڈ ایگریمنٹ (ایف ٹی اے) پر مذاکرات 19 سال گزرنے کے باوجود کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے جس پر دونوں طرف سے خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایف ٹی اے دونوں برادر ممالک کے درمیان موجودہ تجارتی حجم کو یقینی طور پر فروغ دے گا۔انہوں نے زور دیا کہ ٹیرف میں کمی اور نان ٹیرف رکاوٹوں کے خاتمے کو بتدریج آگے بڑھانا چاہیے تاکہ دونوں ممالک کے باہمی اقتصادی فائدے کے لیے مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔تجارتی سرگرمیوں اور اقتصادی تعلقات کو بڑھانے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارت اور عوام کے درمیان رابطوں کو فروغ دینے کے لیے سفری ویزا کے نظام میں نرمی کی جائے جبکہ دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے براہ راست شپنگ لائن کے امکانات کو بھی تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور دونوں ممالک کو تجارت کو فروغ دینے،اقتصادی ترقی کو مضبوط بنانے کے لیے فضائی اور سمندری روابط کو بہتر بنانا ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیشی تاجر بھی مختلف ممکنہ شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کے امکانات پر غور کر سکتے ہیں جن میں زراعت، فوڈ پروسیسنگ، ٹیکسٹائل، ریئل اسٹیٹ، سیمنٹ، توانائی اور آئی ٹی کے شعبے وغیرہ قابل ذکر ہیں۔بنگلہ دیش کو پاکستان کی بلیو اکانومی کا بھی جائزہ لینا چاہیے جو کراچی سے گوادر تک ساحلی پٹی میں زبردست صلاحیت رکھتا ہے اور سمندری نقل و حمل، ماہی گیری، معدنیات نکالنے، ویلیو ایڈڈ پورٹ لاجسٹکس، جہاز سازی، مچھلی کی پروسیسنگ اور ماحولیاتی سیاحت کے بہت زیادہ مواقع فراہم کرتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں