کے الیکٹرک تاجر وںکے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرے، چیئرمین نیپرا

چیئرمین نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) توصیف حسن فاروقی نے کے الیکٹرک پر زور دیا ہے کہ وہ تاجر برادری کو درپیش بجلی سے متعلق تمام مسائل کو اولین ترجیح پر حل کریں کیونکہ وہ نہ صرف بجلی بل ادا کرنے والے اچھے صارفین ہیں بلکہ انتہائی مشکل ماحول میں پاکستان کی معاشی بقاکی جنگ میں فوج کا کردار ادا کر رہے ہیں۔کراچی چیمبر میں آج ہماری موجودگی اس بات کا واضح اعتراف ہے کہ تاجر برادری کے بجلی سے متعلقہ مسائل کو اولین ترجیح دیتے ہوئے حل کرنے کی اشد ضرورت ہے اور وہ ضمانت دیتے ہیں کہ کے الیکٹرک تاجر برادری کے تمام مسائل حل کرے گا۔

ان خیالات کا اظہار چیئرمین نیپرا نے کے الیکٹرک کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر سید مونس عبداللہ علوی کے ہمراہ کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے دوران اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اجلاس میں چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا، وائس چیئرمین بی ایم جی جاوید بلوانی، صدر کے سی سی آئی محمد طارق یوسف، سینئر نائب صدر کے سی سی آئی توصیف احمد، نائب صدر حارث اگر، صدر سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری ریاض الدین اور کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین بھی موجود تھے۔چیئرمین نیپرا نے نشاندہی کی کہ پاکستان کا پاور سیکٹر موجودہ پیداواری صلاحیت کے باوجود بدترین صورتحال سے گزر رہا ہے۔ملک بجلی پیدا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ بجلی کی پیداوار کے لیے فرنس آئل اور کوئلے سمیت درآمدی ایندھن خریدنے کے لیے فنڈز دستیاب نہیں۔

بین الاقوامی منڈیوں میں ایندھن کی مجموعی قیمتوں میں کم از کم آٹھ گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ پاکستانی روپیہ بھی ڈالر کے مقابلے میں آدھے سے زیادہ کم ہو گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ بجلی کے نرخوں پر مجموعی اثر 16 گنا زیادہ ہونا چاہیے کیونکہ ملک کی 65 فیصد بجلی درآمدی ایندھن سے پیدا کی جا رہی ہے لیکن نیپرا نے اس کے مطابق ٹیرف میں اضافہ نہیں کیا جو کہ قابلِ تعریف ہے۔سستی بجلی پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن گرین انرجی کو شامل کرنا ایک چیلنج ہے۔چیئرمین بی ایم جی کی جانب سے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر بلیک آ¶ٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے چیئرمین نیپرا نے بتایا کہ جب بھی ایسا بلیک آ¶ٹ ہوتا ہے تو نیپرا وجوہات جاننے کے لیے تحقیقات کرتا ہے۔ریگولیٹر کو صرف جرمانہ کرنے کا اختیار حاصل ہے اور وہ ماضی میں ایسا کر چکے ہیں جب 9 جنوری 2021 کو سب سے بڑا بلیک آ¶ٹ ہوا اور کے ای سمیت 16 کمپنیوں کو بجلی کی بروقت فراہمی میں ناکامی پر جرمانے عائد کئے گئے۔انہوں نے کہا کہ کے ای نے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نقصانات کو 40 فیصد سے 15.5 فیصد پر لا کر شاندار کام کیا ہے لیکن نیپرا چاہتا ہے کہ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نقصانات کو سنگل ڈیجٹ پر لایا جائے۔ کے ای کی بجلی پیدوار جو پورے پاور سیکٹر میں سب سے مہنگی ہے اسے بھی قابل تجدید توانائی پر توجہ دے کر نیچے لایا جانا چاہیے۔کے ای قابل تجدید توانائی کا منصوبہ 2024 کے لئے ہمارے پاس لایا لیکن ہم چاہتے ہیں کہ یہ اس سے قبل ہو جائے اس لیے وہ 2023 کے لیے اپنا پلان دوبارہ جمع کرائیں گے۔چیئرمین نیپرا نے سولر سیٹ اپ کے لیے نیٹ میٹرنگ کی سہولت کی تنصیب میں تاخیر پر اظہار خیال کرتے ہوئے نیپرا کے کسٹمر سروس مینول (سی ایس ایم) میں ایک سیکشن شامل کرنے کی یقین دہانی کرائی جس کے تحت کے ای سمیت تمام ڈسکوز 3 ماہ کے اندر نیٹ میٹرنگ کی سہولت نصب کرنے کے پابند ہوں گے۔نیپرا لائق تحسین ہے کیونکہ ہر طرف سے شدید مخالفت کے باوجود ریگولیٹر نے نیٹ میٹرنگ کی اجازت دی ہے۔

چیف ایگزیکٹیو کے الیکٹرک مونس علوی نے بجلی کی سپلائی کے منقطع اور دوبارہ کنکشن کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میںکہا کہ کے سی سی آئی میں کے الیکٹرک کی ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کی ایک ٹیم مہیا کی جائے گی تاکہ تاجروصنعتکار برادری کو درپیش ایسے تمام مسائل کو حل کیا جا سکے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ صارفین کو نیٹ میٹرنگ بلنگ نظام کی تنصیب میں 3 ماہ سے زیادہ کی تاخیر کا سامنا کرنا پڑ رہاہے جس کی وجہ سولرائزیشن میں تیزی سے اضافہ اور مطلوبہ میٹر کی محدود مقدار ہے لیکن یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے اور نیٹ میٹرنگ کی سہولت اب 2 سے 3 ماہ میں نصب جا سکتی ہے۔یہ دیکھا گیا ہے کہ کے الیکٹرک کی جانب سے سب کچھ تیار ہونے کے بعد بھی اس عمل میں دیگر تکنیکی مسائل بشمول احاطے میں غلط ارتھنگ کی وجہ سے تاخیر ہو جاتی ہے۔کے الیکٹرک کے سی ای او نے بتایا کہ نجکاری سے اب تک بجلی نظام کی بہتری میں 474 ارب روپے خرچ کیے جا چکے ہیں اور صنعتی صارفین سمیت کراچی کو ہر ممکن ریلیف فراہم کرنے لیے کوشاں ہیں۔ پیداواری یونٹس کو میرٹ آرڈر کے تحت چلایا جارہا ہے۔کے ای دیگر تمام ڈسکوز کے مقابلے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے کیونکہ کے ای کی جانب سے نیٹ میٹرنگ کی سب سے زیادہ درخواستوں پر کارروائی کی گئی ہے۔چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا نے ملک میں حالیہ بلیک آ¶ٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 3 سالوں میں یہ چوتھا موقع ہے جب ملک میں بڑے پیمانے پر بلیک آ¶ٹ ہوا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی کو جوابدہ ٹھہرایا گیا یا ماضی میں تین بار اور حال ہی میں ایک بار پھر اس تباہی کے اسباب کا جائزہ لیا گیا۔یہ واقعی بدقسمتی کی بات ہے کہ بیک اپ ہونے کے باوجود کے الیکٹرک کو سائٹ اور دیگر کئی علاقوں میں صنعتوں کو بجلی کی فراہمی بحال کرنے میں 28 گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگا۔نیشنل گرڈ سے بجلی کی سپلائی میں خلل کی صورت میں کے ای کی بلیک اسٹارٹ سہولت صارفین کو بجلی فراہم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنی چاہیے

۔انہوں نے کہا کہ تاجر وصنعتکار برادری اس وقت سنگین حالات سے گزر رہی ہے اور وہ فکسڈ چارجز کا بوجھ اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔یہی بنیادی وجہ ہے کہ وہ لوڈ میں کمی کے لیے درخواست دینے کا ارادہ کر رہے ہیں لیکن کے ای نے خبردار کیا کہ اگر وہ دوبارہ لوڈ بڑھانے کے لیے درخواست کریں گے تو اسے صرف اس وقت بحال کیا جائے گا جب وہ لوڈ میں کمی کے لیے درخواست دینے کے بعد سے لگنے والے تمام فکسڈ چارجز کا پورا بیک لاگ کلیئر نہ کردیں۔انہوں نے سوال کیا کہ مستقبل میں جب فکسڈ چارجز کا بوجھ اٹھانا پڑے گا تو لوڈ کون کم کروائے گا لہذاچیئرمین نیپرا سے درخواست ہے کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں۔انہوں نے مزید کہا کہ کے الیکٹرک کی اجارہ داری کو ختم کرنا ہوگا اور کراچی کے پاور جنریشن ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک میں مسابقت کو متحرک کرنا ہوگا جس سے صارفین کو بجلی کے معیار کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ بہترین اور سستی بجلی کے انتخاب کی آزادی ملے گی۔وقتاً فوقتاً مائیکرو سیکنڈ تک بجلی کے اتار چڑھا¶ سے پیداواری نقصانات اور مشینری کو نقصان ہوتا ہے۔اس لیے نیپرا بجلی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے سخت ہدایات جاری کرے۔بندرگاہوں پر سولر پینلز، سوئچ گیئرز اور انورٹرز کی ایل سی جاری نہ ہونے اور پھنسے ہوئے درآمدی کنسائنمنٹ پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے چیئرمین نیپرا سے درخواست کی کہ وہ اسٹیٹ بینک کو خط لکھ کر یہ معاملہ اٹھائیں تاکہ سولر پینلز کو بندرگاہ سے جلد از جلد کلیئر کیا جا سکے۔ہمیں شمسی توانائی کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے جو قومی مفاد میں ہے کیونکہ اس سے گردشی قرضے کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔صدرکے سی سی آئی طارق یوسف نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ پیک آور ٹیرف صرف گھریلو صارفین پر لاگو ہونے چاہئیں جبکہ صنعتوں کو پیک آور سے مستثنیٰ ہونا چاہیے کیونکہ صنعتوں میں بلاتعطل پیداوار ہی ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کا واحد راستہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں