اسٹیٹ بینک کی بے پناہ خودمختاری ملکی سالمیت کیلیے خطرہ ہے، معاشی ماہرین

اسٹیٹ بینک کو خود مختار بنانے کے لیے اسٹیٹ بینک ایکٹ 1956ء میں مجوزہ ترمیم نے ملک کے معاشی منظر نامے پر حساس سوالات کھڑے کردیے، معاشی ماہرین نے اسٹیٹ بینک کی حد سے زیادہ خودمختاری کو ملکی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دے دیا۔

 عوامی سطح پر اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کی تجویز کو آئی ایم ایف کے ایماء پر ملک کی معیشت کا کنٹرول عالمی مالیاتی اداروں کے سپرد کیے جانے سے تعبیر کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب معاشی ماہرین اسٹیٹ بینک کی حد سے زیادہ خودمختاری کو ملکی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔

یہی آزادی ترکی میں دی گئی تو سلطنت عثمانیہ ٹوٹ گئی تھی، ڈاکٹر قیصر بنگالی

ماہر معشیت قیصر بنگالی نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک کی پاکستان میں مجوزہ آزادی کی مثال جدید دور میں کہیں نہیں ملتی، اس طرح کی آزادی ترکی میں مرکزی بینک کو دی گئی جس کا نتیجہ سلطنت عثمانیہ ٹوٹنے کی شکل میں نکلا، ترکی میں مرکزی بینک نے سلطنت عثمانیہ کو مالی لحاظ سے بے اختیار کردیا اور جس کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ ٹوٹ گئی کیونکہ حکومت کے پاس اخراجات کے لیے پیسہ نہیں تھا۔

مرکزی بینک کو بااختیار کرنے سے فوج کے پاس لڑنے کا سرمایہ نہ رہا

قیصر بنگالی نے کہا کہ ترکی کی فوج کے پاس جنگ لڑنے کے لیے سرمایہ نہیں تھا کیونکہ وہاں بھی مرکزی بینکوں کو اس طرح بااختیار کردیا گیا تھا، سلطنت عثمانیہ سرمائے کی قلت کی وجہ سے اندرونی بغاوتوں پرقابو نہ پاسکی اور زوال کا شکار ہوگئی۔

آئی ایم ایف اسٹیٹ بینک کے ذریعے پاکستان پر اپنا تسلط چاہتا ہے

قیصر بنگالی کے مطابق اگر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو بھی اسی طرح سیاہ سفید کا مالک بنادیا گیا تو اس سے ملک کی سالمیت کو خطرہ ہوگا پاکستان کے پاس فوج تو کیا پولیس کو تنخواہ دینے کے لیے سرمایہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے تمام اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ جمہوریت کی بقاء کے لیے اپنی جدوجہد کا رخ عالمی مالیاتی اداروں کی جانب موڑ دیں جو اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کی آڑ میں پاکستان پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتی ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی مکمل خود مختاری کا فیصلہ واپس لیا جائے، ڈاکٹر حفیظ پاشا

ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ اے پاشا نے اسٹیٹ بینک کی مکمل خود مختاری کی تجویز کو رد کرتے ہوئے مانیٹری اینڈ فسکل پالیسی کوآرڈی نیشن بورڈ کو برقرار رکھنے کو پاکستان کے معاشی استحکام اور سالمیت کے لیے لازمی قرار دیا۔

اسٹیٹ بینک کے بورڈ سے حکومتی نمائندے کو ہٹانا انتہائی غلط فیصلہ

ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق بنگلہ دیش نے 1972ء میں مرکزی بینک کے ایکٹ میں ترمیم کرکے فسکل مانیٹری پالیسی کو آرڈی نیشن بورڈ بنایا اور پاکستان نے 90ء کی دہائی کے آخر میں بنگلہ دیش کی تقلید کرتے ہوئے قومی معاشی اہداف اور ان پر عمل درآمد کی پالیسیوں کی تشکیل کے لیے مانیٹری اینڈ فسکل پالیسی کوآرڈی نیشن بورڈ قائم کیا اسی طرح بھارت میں بھی اسٹیٹ بینک کے بورڈ میں حکومتی نمائندگی ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں اسٹیٹ بینک کے بورڈ سے حکومت کے نمائندے کو ہٹا دیا گیا۔

اسٹیٹ بینک قرض روک دے تو دفاعی اخراجات کیسے پورے ہوںگے؟

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو جن حالات کاسامنا ہے انہیں مدنظر رکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک کو مکمل اختیار یا آزادی نہیں دی جاسکتی، اسٹیٹ بینک حکومت کو قرضوں کی فراہمی روک دے تو دفاعی اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے؟ جو 2018ء میں 100 فیصد قرضوں سے پورے کیے گئے جبکہ گزشتہ سال 60 فیصد دفاعی اخراجات قرض لے کر پورے کرنا پڑے اس طرح دفاعی اہداف کے حصول کے لیے بھی اسٹیٹ بینک کا مکمل اختیار ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا اور ملک کا دفاع اسٹیٹ بینک کی آزادی کے نام پر یرغمال بن جائے گا۔

اسٹیٹ بینک قومی ادارہ ہے جو حکومتی پالیسیوں کا پابند ہے

ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق اسٹیٹ بینک ایک قومی ادارہ ہے جو حکومتی معاشی پالیسیوں پر عمل درآمد کا پابند ہوتا ہے اور وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک مل کر زیادہ بہتر نتائج دے سکتے ہیں جس طرح کورونا کی وبا کے دوران معیشت کو بحال کرنے کے لیے کیا گیا۔

افراط زر اور بے روزگاری پر قابو پانا ضروری ہے

انہوں نے کہا کہ افراط زر پر قابو پانا ضروری ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنا ہے کہ بے روزگاری میں کمی ہو، آمدن میں اضافہ ہو اور ترقی کا پہیہ چلتا رہے اس کے لیے سب سے اہم ادارہ نیشنل اکنامک کونسل ہے جو سالانہ معاشی پلان مرتب کرتی ہے اس کونسل میں چاروں صوبوں کی نمائندگی اور مشاورت ہوتی ہے اور فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ملک کی معیشت کو کس رفتار سے آگے بڑھا نا اور افراط زر کو کس سطح پر رکھنا ہے۔

جب وزیرعظم قانون کے تابع ہے تو گورنر اسٹیٹ بینک احتساب سے مستثنیٰ کیوں؟

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ اسٹیٹ بینک لازمی طور پر نیشنل اکنامک کونسل کا ماتحت ہونا چاہیے جو ملک کا ایک پریمیئر اکنامک ادارہ ہے اس ادارے کے طے کردہ اہداف اسٹیٹ بینک کو فالو کرنا ہوں گے، اسی طرح اسٹیٹ بینک یا اس کے گورنر کو احتساب سے مکمل استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا جب پاکستان میں وزیراعظم بھی قانون کے تابع ہے تو اسٹیٹ بینک کا گورنر یا کوئی عہدے دار کیوں احتساب سے مستثنیٰ ہوسکتا ہے؟

اسٹیٹ بینک صنعتوں اور زراعت کو قرض نہیں دے گا تو ریلیف اسکیموں کا کیا ہوگا؟

ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ اگر اسٹیٹ بینک فسکل آپریشنز کے ذریعے صنعتوں اور زراعت کے شعبہ کو قرضہ فراہم نہیں کرے گا تو ان اسکیموں کا کیا ہوگا جو معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے، برآمدات میں اضافہ، زراعت کی بہتری اور تعمیراتی صنعت کے لیے اعلان کردہ وزیر اعظم پیکیج کے تحت متعارف کرائی گئی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں