حالیہ گلوبل وارمنگ گزشتہ7000 برس میں شدید ترین قرار

درخت کے تنے میں موجود چھلے ماضی کی موسمی کیفیات کے بہترین قدرتی دستاویزات میں سے ایک ہیں کیوں کہ درخت بارش اور درجہ حرارت جیسے مقامی موسم کے عوامل کے لیے حساس ہوتے ہیں۔

گرم اور مرطوب سالوں میں درخت کے یہ چھلےعموماً چوڑے ہوتے ہیں جبکہ سرد اور خشک سالوں میں یہ سکڑ جاتے ہیں۔قطبین کے نواحی علاقوں میں درختوں کی نمو عموماً درجہ حرارت کی تبدیلی کے حوالے سےزیادہ حساس ہوتی ہے اور اگر درختوں کی نمو اور درجہ حرارت کے ریکارڈ کے اعداد و شمار کے درمیان موازنہ موجود ہو تو قدیم درختوں کے چھلوں کی چوڑائی سے ماضی کے درجہ حرارت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

رشیئن اکیڈمی آف سائنسز اور یورل فیڈرل یونیورسٹی کے سائنس دان شمال مغرب سائبیریا میں جزیرہ نما یامل کے علاقے میں گزشتہ 40 سالوں سے تحقیق کر رہے ہیں اور فاسل لکڑیاں تجزیے کے لیے اکٹھی کر رہے ہیں۔

روس میں ڈینڈروکرونولوجی کے بانی اسٹیپن شیاٹوف اس خطے میں ملنے والے قدیم درختوں کی اہمیت محسوس کرنے والے اور ان نمونوں کو باقاعدہ طور پر جمع کرنے والے پہلے شخص ہیں۔

رشیئن اکیڈمی آف سائنسز کے محققین نے تب سے اب تک دو درجن سے زیادہ مشن کر لیے ہیں اور قدیم درختوں کے تنوں کے 5000 سے زائد نمونے جمع کر لیے ہیں۔

جرنل نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہونے والی تحقیق میں محققین نے بتایا کہ شمال مغربی سائبیریا اس وقت 7000 سالوں میں سب سے گرم موسمِ گرما سے گزر رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں