غیر ضروری درآمدات کی حوصلہ شکنی کر کے تجارتی خسارے کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، افتخار علی ملک

سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر افتخار علی ملک نے حکومت پر زور دیا ہے کہ غیر ضروری درآمدات کی حوصلہ شکنی کر کے تجارتی خسارے کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں کیونکہ یہ درآمدات قومی خزانے پر بڑا بوجھ ہیں۔

جمعرات کو لاہور چیمبر کے سابق سینئر نائب صدر مہر کاشف یونس کی قیادت میں تاجروں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تجارتی خسارے میں اضافہ کی بنیادی وجہ درآمدات میں اضافہ، ترسیلات زر میں کمی اور قرضوں کی ادائیگی میں اضافہ ہے۔ حال ہی میں تجارتی خسارہ میں 9 فیصد اضافہ اور ترسیلات زر میں 15 فیصد کمی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھائو پاکستان کی کمزور معیشت، بیرونی ادائیگیوں اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے بدستور ایک بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ ترسیلات زر تیزی سے کم ہو رہی ہیں جس پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ کے دوران اشیاءاور خدمات کا تجارتی خسارہ بڑھ کر 27.35 بلین ڈالر ہو گیا ہے جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 14.81 بلین ڈالر تھا۔ حکومت اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے درآمدات پر معمولی پابندیاں عائد کرتی ہے مگر ان اقدامات کا تھوڑا سا وقتی اثر تو ہو سکتا ہے لیکن یہ مسئلہ کا پائیدار حل نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب تک برآمدات میں اضافہ اور براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے سٹرکچرل ریفارمز کا عملی نفاذ نہیں ہو گا ہمیں وقتاً فوقتاً لمبے عرصے تک اس صورتحال کا سامنا رہے گا۔ مہر کاشف یونس نے کہا کہ رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں تجارتی خسارے میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا ہے جو 82 فیصد سالانہ، تقریباً 31.96 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے جس کی بڑی وجہ درآمدات میں دوگنا اضافہ ہے۔

اس لئے اس رجحان کو روکنا اشد ضروری ہے تاکہ قومی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت تمام اہم پالیسی سازی کے فیصلوں پر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتی ہے لیکن مسلسل بڑھتی ہوئی ان غیر ضروری درآمدات پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات ہی واحد راستہ ہیں جن کے بغیر ہم زندہ رہ سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں