اب پیٹرولیم اور سونے کی طرح پانی کی ’عالمی تجارت‘ بھی ہوگی

امریکی سرمایہ دار اداروں نے ایک نیا نظام پیش کردیا ہے جس کے تحت آئندہ چند برسوں میں پانی کی عالمی تجارت بھی اسی طرح کی جائے گی جیسے آج دنیا بھر میں ’’پیشگی سودوں‘‘ (فیوچرز کنٹریکٹس) کے ذریعے تیل اور سونے کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔

اس ضمن میں امریکی مالیاتی کمپنی ’’سی ایم ای گروپ‘‘ نے ایک معاہدہ بھی ترتیب دے دیا ہے جس کا تعلق کیلیفورنیا میں آبی فراہمی (واٹر سپلائی) کی مقامی مارکیٹ سے ہے، جس کا موجودہ تجارتی حجم 110 کروڑ ڈالر (تقریباً 175 ارب پاکستانی روپے) بتایا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ کیلیفورنیا کا شمار ماحولیاتی تبدیلی سے شدید ترین متاثرہ امریکی ریاستوں میں ہوتا ہے جہاں گزشتہ چند برسوں کے دوران اوسط درجہ میں نمایاں اضافے اور جنگلات میں آتش زدگی کی شدت بڑھنے کے علاوہ پانی کی قلت میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے جس نے لگ بھگ پورے کیلیفورنیا کو ایک غیر اعلانیہ صحرا میں تبدیل کردیا ہے۔

یہی وہ صورتِ حال ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے ’’سی ایم ای گروپ‘‘ نے بڑے پیمانے پر پانی کی خرید و فروخت کے ایسے معاہدوں پر کام شروع کردیا تھا جن میں گھریلو، صنعتی اور زرعی استعمال کے پانی کو ’’جنسِ تجارت‘‘ (کموڈیٹی) کا درجہ دیتے ہوئے اس کے آزادانہ نرخ مقرر کرنے اور پیشگی سودوں کو ممکن بنایا گیا تھا۔

ویب سائٹ ’’بزنس انسائیڈر‘‘ نے اس بارے میں سی ایم ای گروپ کے ایک اہم عہدیدار، ٹم مک کورٹ کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ پانی کو جنسِ تجارت قرار دینے سے بالخصوص کسان طبقے کو بہت فائدہ ہوگا کیونکہ اس طرح وہ مستقبل کے امکانات مدنظر رکھتے ہوئے، مناسب ترین قیمتوں پر، زرعی پانی کے ’’پیشگی سودے‘‘ کرسکیں گے اور یوں آنے والے مہینوں میں آبی فراہمی سے متعلق اپنے خدشات و خطرات کو ہر ممکن حد تک کم کرسکیں گے۔

بتاتے چلیں کہ عالمی ماحول میں تیز رفتار تبدیلی انسان کے بس سے باہر ہوتی جارہی ہے اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 2025 تک ساری دنیا میں پانچ ارب سے زیادہ لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا ہوگا جس کا اثر نہ صرف ممالک پر بلکہ عالمی سیاست پر بھی پڑے گا۔

ان حالات میں معدنی تیل (پیٹرولیم) اور سونے کی طرز پر پانی کو بھی جنسِ تجارت (commodity) قرار دینا ایک تشویشناک امر ہے۔ البتہ، یہ کہنا فی الحال قبل از وقت ہے کہ مستقبل بعید میں پانی کی عالمی تجارت کس طرح کے سیاسی، سماجی اور معاشی نتائج کو جنم دے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں