پاکستان میں صرف 3 فیصد افراد 90 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں، وزیر مملکت برائے ریونیو معیشت کی بہتری کیلئے ٹیکس نیٹ بڑھانے کی ضرورت ہے، صدر کاٹی فراز الرحمان، زبیر چھایا، زبیر طفیل، خالد تواب
وزیر مملکت برائیریونیو اشفاق تولہ نے کہا ہے کہہ پاکستان ڈیفالٹ نہیں ہوسکتا تمام افواہوں کو مسترد کرتا ہوں ، بجٹ میں9200 ارب روپے میں سے 9 ہزار ارب روپے با آسانی ٹیکس جمع ہوجائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کورنگی ایسو سی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی)سے خطاب میں کہا، تقریب میں کاٹی کے صدر فراز الرحمان، نائب سرپرست اعلی زبیر چھایا، سینئر نائب صدر نگہت اعوان، نائب صدر مسلم محمدی، قائمہ کمیٹی کے چیئرمین طارق ملک، یو بی جی کے صدر زبیر طفیل، خالد تواب، اے ایف فرگوسن کے پارٹنر آصف ہارون، کراچی چیمبر کے صدر طارق یوسف، سابق صدر کاٹی فضل جلیل و دیگر موجود تھے۔
وزیر مملکت نے مزید کہا کہ چھوٹے کاروبار کرانے والوں کو اس بجٹ میں تاریخی ریلیف دیا گیا ہے جبکہبڑی صنعتوں میں آٹو اور الیکٹرانکس سیکٹر سب سے ذیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس بجٹ میں کوئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نہیں دی ہے ، ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے ابہام کو آئی ایم ایف کے سامنے دور کردیا جائے گا۔ اشفاق تولہ نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں کیش ٹریڈ کا نظام ٹیکس نظام پر حاوی ہے۔
پاکستان میں نوے فیصد میں سے صرف تین فیصد لوگ ٹیکس دے رہے ہیں ۔ بجٹ میں تمام شعبوں کا جائزہ لے کر ٹیکس پلان مرتب کیا گیا ہے۔ 2013 سے 2016 تک آئی ایم ایف پروگرام معاشی ڈھانچے کے حساب سے تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سابقہ حکومت نے سی پیک پروگرام کو بند کرکے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔ اس سے قبل کاٹی کے صدر فرا ز الرحمان نے کہا کہ معیشت کی بہتری کیلئے ٹیکس نیٹ کو بڑھا نا ضروری ہے۔
حکومت ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرے ۔ انہوں نے کہا کہ چین نے دوستی نبھاتے ہوئے پاکستان کو دوباری 1 ارب ڈالر کا قرض دیا جس سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پورٹ پر اب بھی کنٹینر پھنسے ہیں، خام مال کی قلت اب تک دور نہیں ہوئی۔ صدر کاٹی نے کہا کہ بجٹ میں ٹیکس کے اہداف حاصل کرنے کیلئے حکومت کو صنعتکاروں اور بزنس کمیونٹی سے مشاورت کرنی ہوگی۔
نائب سرپرسر ت اعلی زبیر چھایا نے کہا کہ بجٹ میں ودہولڈنگ ٹیکس 1 فیصد بڑھا دیا گیا ہے، لیکن اس وقت حالات ایسے ہیں کہ لوگ ٹیکس ریجیم سے ڈرتے ہیں۔ جبکہ فائلر اور نان فائلز کا فرق سمجھ سے بالا تر ہے۔ انہوں نے کہا کہ فائلر کو ٹیکس میں جو بچت ہوتی ہے وہ ایف بی آر کے دفتر اور نوٹس کا جواب دینے میں خرچ ہوجاتی ہے۔ اس موقع پر کراچی چیمبر کے صدر طارق یوسف نے کہا کہ حکومت نے روایتی بجٹ ہی پیش کیا ہے ، بجٹ میں وہ ہی پرانے فارمولے دہرائے گئے ہیں ۔
جو ٹیکس دے رہا ہے اس پر مزید ٹیکس لگادیاگیا اور جو ٹیکس نہیں دے رہا ہے اسکو دوبارہ چھوٹ دی گئی ہے ۔ صدر کراچی چیمبر نے کہا کہ ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے پر سیل ٹیکس کی چھوٹ ہے مگر خریداری پر نہیں۔ صدر کراچی چیمبر نے کہا کہ ٹیکس کے نظام کو اتنا دشوار کردیا ہے کوئی آنے کو تیار نہیں ہورہا۔ اے ایف فرگوسن کے پارٹنر آصف ہارون نے کہا کہ حکومت نے سپر ٹیکس 2015 میں متعارف کرایا تھا،گزشتہ سال فنانس ایکٹ 2022 کے ذریعے سپر ٹیکس دوبارہ لاگو کیا گیا۔
30 کروڑ روپے سے زائد آمدنی پر 10 فیصد ٹیکس لگایا گیا تھا، جسے بڑھا کر 350 ملین سے زائد پر 6 سے 10 فیصد ٹیکس لگا دیا۔ انہو ں نے کہا کہ رواں سال 500 ملین سے زائد آمدنی پر ٹیکس رائد کیا جائے گا۔ آصف ہارون نے مزید کہا کہ بونس شیئرز جاری ہونے پر شیئر ہولڈر پر 10 فیصد ٹیکس لگ جائے گا، کمرشل ایکسپورٹر پر 5.5 سے بڑھا کر 6 فیصد کر دیا گیا ہے۔ جبکہ نان فائلر کیلئے بینک سے 50ہزار سے زائد نکالنے پر 0.6 فیصد عائد کیا گیا ہے۔ تقریب سے قائمہ کمیٹی کے چیئرمین طارق ملک ، یو بی جی کے صدر زبیر طفیل، سندھ ریجن کے چیئرمین خالد تواب نے بھی خطاب کیا۔