آئی ایم ایف کے بغیر ملک چلانا، قرضوں کی ادائیگی مشکل ٹاسک ہوگا، میاں زاہد حسین

 نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے بغیرملک چلانا انتہائی مشکل ہوگا کیونکہ آئی ایم ایف کے بغیر مزید قرضوں کا ملنا محال ہو گا جبکہ پرانے قرضوں کی ادائیگی 25 ارب ڈالر سالانہ کرنی ہوگی جو پاکستان کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام میں تاخیر کے پیش نظر متبادل اقتصادی ماڈل عوام کے سامنے پیش کرے یا پھرملک کی اقتصادی صورتحال کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ بیانات کے زریعے ملک کی مشکلات میں اضافہ نہ کیا جائے اورسیاسی نعرے بازی کے بجائے زمینی حقائق کے مطابق حکمت عملی وضع کی جائے۔

میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس خوش آئند ہے مگر درحقیقت کرنٹ اکاؤنٹ کی صورتحال بہتر ہونے کی وجہ اقتصادی اصلاحات نہیں بلکہ درآمدات کو 80 ارب ڈالر سے کم کر کے 55 یا 60 ارب ڈالر سالانہ تک محدود کرنا ہے۔

درآمدات کو محدود کرنا ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے ایک وقتی انتظام ہے جسے زیادہ دیرتک برقرار نہیں رکھا جا سکتا کیونکہ اسکی وجہ سے پاکستان کا جی ڈی پی کم ترین سطح پر پہنچ چکا ہے مزید برآں ہزاروں کارخانے بند اور لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں۔ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس کسی بھی صورت میں اس حد تک نہیں بڑھ سکتا کہ پاکستان 25 ارب ڈالر کے قرضے ہرسال واپس کر سکے۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نمٹنے کے لئے کئے گئے اقدامات کی وجہ سے معیشت کا تقریباً ہرشعبہ متاثر ہوا ہے، مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی عدم استحکام بڑھا ہے، بڑی صنعتوں کی پیداوار میں پچیس فیصد کمی آئی ہے فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ 98 فیصد کم ہو چکی ہے۔ لاکھوں افراد کو کم نتخواہوں پر کام کرنا پڑ رہا ہے جبکہ بہت سی صنعتیں اپنی استعداد سے کہیں کم کام کر رہی ہیں۔

ڈیفالٹ کے خطرے اور روپے کی قدرمیں کمی جاری رہنے سے مارکیٹ بے یقینی کی کیفیت میں ہے جس سے مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے مگر دوسری طرف روپے کی قدر میں کمی سے ایکسپورٹ اور بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے ترسیلات زرمیں اضافہ ہوسکتا ہے۔ ترسیلات زر سے سالانہ تیس ارب ڈالر یا نو ہزارارب روپے پاکستانیوں کے استعمال میں آتے ہیں جومہنگائی اورغربت سے مقابلے کا باعث ہیں۔

میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ عوام اور کاروباری برادری کو کرنٹ اکاؤنٹ مینیجمنٹ کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے جس سے ڈیفالٹ کا خطرہ وقتی طور پر پر ٹل گیا ہے مگر اس سے معیشت سکڑ رہی ہے اورحکومت کی ٹیکس اور نان ٹیکس آمدنی میں بھی کمی آ رہی ہے اور مالیاتی خسارہ بڑھ رہا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اگر معیشت، زراعت اور توانائی کے شعبہ میں مطلوبہ اصلاحات فوری طور پر کرلی جائیں تو 20 ارب ڈالر سالانہ بچائیجا سکتے ہیں جس سے نہ صرف عوام کو ریلیف فراہم کی جا سکتی ہے بلکہ ڈیفالٹ کے خطرے سے بھی بخوبی نمٹا جا سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں