ایکسپورٹ انڈسٹریز میں خون کی ہولی ، عرفان اقبال شیخ صدر ایف پی سی سی

ایف پی سی سی آئی کے صدرعرفان اقبال شیخ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے تازہ ترین تجارتی اعدادوشمار کے مطابق اپریل 2023 میں سالانہ بنیادوں پر برآمدات میں 26.68 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ آئی ایم ایف کے حکم پر پانچ زیرو ریٹڈ، ایکسپورٹ پر مبنی صنعتوں کے لیے گیس اور بجلی کی سبسڈی کی اچانک، سخت ترین واپسی کا براہ راست، ناگزیر اور پیشگی طور پر معلوم اثر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مزید توہین آمیز یہ ہے کہ تمام سخت ترین اقدامات کرنے کے باوجود آئ ایم ایف پروگرام ابھی تک بحال نہیں ہوسکا ہے۔

عرفان اقبال شیخ نے وضاحت کی کہ رعایتی ٹیرف صرف پانچ زیرو ریٹیڈ سیکٹرز کے لیے موثر تھے؛ یعنی کہ ٹیکسٹائل، جوٹ، چمڑے، جراحی اور کھیلوں کے سامان اوران سب کی برآمدات میں بالعموم اور خاص طور پر ٹیکسٹائل میں زبردست کمی واقع ہوئ ہے؛ جس میں اپریل 2023 میں سالانہ بنیادوں پر 29 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو یہ معلوم کرنے کے لیے اور کیا ریکارڈ کرنے کی ضرورت تھی کہ ان کی پالیسی تجارت اور صنعت کے لیے تباہ کن اور بے کار تھی۔

عرفان اقبال شیخ نے اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ جولائی تا اپریل مالی سال 2023 کے دوران پاکستان کی برآمدات 23.174 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں؛ جبکہ جولائی تا اپریل مالی سال 2022 میں 26.247 ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں۔ اپریل 2023 میں سب سے زیادہ گراوٹ ریکارڈ کی گئی؛ کیونکہ اپریل 2023 میں برآمدات 2.124 ارب ڈالر ہوہیں، جبکہ اپریل 2022 میں 2.897 ارب ڈالر کی برآمدات تھیں اور یہ 26.68 فیصد کی کمی ہے۔

 عرفان اقبال شیخ نے یاد دلایا کہ بطور صدر ایف پی سی سی آئی انہوں نے گزشتہ 2 ماہ میں اس معاملے پر 6  واضح پالیسی بیانات جاری کیے ہیں؛ لیکن، حکومت اور اس کی اقتصادی ٹیم اس طوفان کو نہیں دیکھ سکی جو ملک کی طرف بڑھ رہا تھا۔.

برآمدات کی کارکردگی کو پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر (ایف ای آر) اور آئی ایم ایف سے محض ایک بلین ڈالر کی قسط کے اجراء کے تناظر میں دیکھنے کے لیے، ملک کو صرف مالی سال 2023 میں اب تک اپنی برآمدات میں 3.073 بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور یہ سب آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے ناکام اور ضائع شدہ عمل میں ہوا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ان تمام سخت فیصلوں پر عمل درآمد کے بعد بھی جن کا کوئی معاشی مطلب نہیں، کہاں ہے وہ قیمتی، پراسرار آئی ایم ایف ڈیل

ایف پی سی سی آئی کے سربراہ نے برآمدات، صنعت، روزگار، ریونیو اورادائیگیوں کا توازن کو بچانے کے لیے برآمدات پر مبنی صنعتوں کے لیے بجلی، گیس اور آر ایل این جی کے لیے علاقائی طور پر مسابقتی توانائی ٹیرف (آر سی ای ٹی ) کے دوبارہ شروع کرنے اور موثر نفاذ کا واضح طور پر مطالبہ کیا ہے۔ بصورت دیگر ملک میں کوئی صنعت باقی نہیں رہے گی۔

 عرفان اقبال شیخ نے ایف پی سی سی آئی کے اس مطالبے کا اعادہ کیا ہے کہ جہاں تک برآمدات کا تعلق ہے، حکومت کو ایک حفاظتی طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے جو مؤثر برآمدی فنانسنگ اسکیم کے ذریعے فنانس تک رسائی کو یقینی بنایے۔ کیونکہ کوئی بھی صنعت 21 فیصد کے پالیسی ریٹ پر کام نہیں کر سکتی اور کمرشل کاروباری قرضے کم از کم 23.5 فیصد سود کی شرح پر پہنچ چکے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں