تھر کول گیم چینجر منصوبہ، کامیابی کیلئےعملی مشکلات کا خاتمہ ناگزیرہے، شمس الدین شیخ

سندھ اینگروکول مائننگ کمپنی کے سابق سربراہ اور نیشنل ریسورسزپرایئوٹ لمیٹڈ کے چیف ایگزیکیٹیو شمس الدین احمد شیخ نے بزنس پاکستان سے ملک میں توانائی، بجلی کے بحران اورتھر کول کے حوالے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تھرکول پاکستان کیلئے توانا ئی کے بحران کے خاتمے میں گیم چینجر کردار ادا کرسکتا ہے تاہم اس کیلئے عملی مشکلات کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ توانائی کا بحران طویل مدتی اور مستقل پالیسیوں سے ہی حل ہوسکتا ہے جو ہم بد قسمتی سے نہیں کرپا رہے، سی پیک سے معاملات میں قدرے بہتری آئی مگر اس ثمرات کو آگے لے کرچلنے اور اس سے صحیح معنوں میں مستفید ہونے کے راستے میں بھی یہ ہی مسئلہ درپیش ہے۔ بیوروکریسی میں مسلسل ہونے والی تبدیلیوں سے پالیسیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔ ہم شارٹ ٹرم فیصلے کرتے ہیں جو فوری طور پر تو کچھ  فائدہ دیتے ہیں مگر طویل مدتی صورتحال میں مفید ثابت نہیں ہوتے۔ ہمیں توانائی کے مسئلہ کے ہر پہلو کو دیکھنے کی ، اور اس پر ماہرانہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ملک میں بہترین ماہر،پروفیشنلز اور اسٹاک ہولڈرز موجود ہیں جن کو اکھٹا کرکے ایک پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت ہے جو کچھ وقت لے مگر ایک ایک نکتہ پر غور کرے اور ایک طویل مدتی پالیسی تشکیل  دے جس پر عملدرامد کو یقینی بنایا جائے، بیوروکریسی میں بیٹھے افراد ظاہر ہے کہ اس قسم کی پیشہ ورانہ اہلیت نہیں رکھتے ۔ انہیں اس معاملے میں حقیقی مسائل کا اس انداز میں نہ تو ادراک ہے اور نہ ہی ان کے پاس اس کا کوئی حل موجود ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ تھر کول کے ذخائر ۹۰ کی دہائی میں دریافت ہوئے اور انہیں تب ہی ڈیویلپ کرنے کی ضرورت تھی اور اس وقت بہت سی بیرونی مدد اور مواقع موجود تھے مگر بوجوہ ہم ایسا نہیں کرسکے۔ ۲۰۰۸ میں سندھ حکومت نے اس پر دوبارہ کام شروع کیا اور اینگرو نے اس میں سرگرم کردار ادا کیا اور ۲۰۱۶ تک پہلا پلانٹ تیار کرلیا گیا۔ ایک پراجیکٹ کی کامیابی ویسے ہی دیگر کئی پراجیکٹس کی کامیابی سے جانچی جا سکتی ہے۔ ۲۰۱۹ میں ہم ۶۶۰ میگا واٹ پاور کی جنریشن شروع کردی تھی جو آج تین ہزار میگاواٹ ہوچکی ہے جو تھرکول سے پیداروار ہو رہی ہے۔ اب اس کو مزید ڈیویلپ کرنے کی ضرورت ہے مگر اب حالات تھوڑے مشکل ہیں اب دنیا میں کوئلہ کیلئے آسانی سے نہ تو فنانسنگ دستیاب ہے اور نہ ہی مشینری، یہ حقیقت ہے کہ کوئلہ کو صاف اور ماحول دوست فیول نہیں مانا جاتا ہے جس کی وجہ سے اب دنیا اس سے ہٹ رہی ہے۔ درحقیقت ہم اب تک تھر سے حاصل ہونے والے فوائد حاصل ہی نہیں کرسکے ہیں ابھی وزیراعظم نے ایک پلانٹ کا افتتاح کیا ہے مگر آپ اس کی بجلی حاصل نہیں کرسکتے کیونکہ ٹرانسمیشن لائنز ہی نہیں ہیں تھر میں چوبیس سو میگا واٹ بجلی بن رہی ہے مگر وہاں سے نکالی نہیں جاسکتی کیونکہ لائنز نہیں ہیں یہ این ٹی ڈی سی کا کام ہے اور انہیں اس کا پتہ بھی ہے مگر حکومتی سطح پر پالیسیاں اتنی جلد تبدیل ہوتی ہیں لوگ تبدیل ہوتے ہیں کہ کوئی کام نہیں ہوپاتا۔ حکومت پاور پرڈیوسر کو بجلی پیدا کرنے کے پیسے دے رہی ہے مگر بجلی نہیں نکال پا رہی مسئلہ وہی ناقص اور بے ربط پالیسیوں کا ہے۔ اس وجہ سے تھرکول کی بجلی بھی جس ریٹ پر پرڈیوس ہونی چاہیے تھی اس سے بہت مہنگی ہے۔

تھرکول کو دوبارہ سے آج کے حالات میں دیکھنے کی ضرورت ہے، یہ ہائیڈرو کاربن پاور ہے جسے گیس یا فرٹیلائزرز میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، دیگر صنعتوں میں استعمال کیا جاسکتا ہے مگر اس کیلئے ایک واضح اور طویل مدتی پالیسی کی ضرورت ہے جب تک پورا سسٹم ٹھیک نہیں ہوگا اس کا فائدہ نہیں ہوگا۔ تھرکول کے پراجیکٹ میں سب سے مثبت بات یہ تھی کہ یہاں کوئی کرپشن نہیں تھی ہر حکومت نے یہاں کے تمام پراجیکٹ کو بارہا آڈٹ کیا مگر کوئی کرپشن نہیں پائی۔  دوسری سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ اس سے مقامی افراد کو فائدہ ہوا۔ ہم نے اینگرو کے پلیٹ فارم سے سب سے پہلی بات یہ طے کی کہ ہم وہاں کے رہائشیوں کو ہر معاملے میں فوقیت دیں گے ان کیلئے ہر طرح کی سہولتیں دی جایئں گی، ہم نے وہاں اسکول کالج بنائے اسپتال بنائے، تھرکول میں کام کرنے والوں کی اکثریت وہیں کی رہائشی ہے، ہم نے ان کے لئے دنیا بھر میں ٹریننگز کرائیں آج وہ بہترین کام کر رہے ہیں،ان سب چیزوں سے ان کی زندگیوں میں اور علاقے میں بڑی بنیادی تبدیلیاں آئیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ آج وہ اس پراجیکٹ کو اپنا سمجھتے ہیں اور یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔

نیشنل ریسورسز پرائیویٹ لمیٹڈ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان معدنیات کا گھر ہے مگر اب تک ان معدنیات کی ملکی معیشت میں فعالیت کیلئے مربوط کام نہیں کیا جاسکا جس کی متعدد وجوہات ہیں میں تھرکول کے زمانے ہی سے خواہاں تھا کہ مائننگ میں کام کیا جائے اور اس کیلئے اینگرو کو اس بزنس میں لانا چاہتا تھا مگر ان کی عدم دلچسپی لے باعث کچھ انویسٹمنٹ کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کیا اور کام شروع کیا۔ مائننگ درحقیقت بہت مہنگا اور وقت طلب کام ہے پاکستان میں اب تک مائننگ چھوٹے پیمانے پر ہوتی رہی ہے جبکہ مائننگ چھوٹے پیانے یا کم سرمائے کا کام ہی نہیں ہے، اس کے علاوہ ہم نے ریکوڈک کا مسئلہ حل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اگرچہ اس سے ہماری کمپنی کا کائی فائدہ نہیں ہوا مگر ملک کو اربوں ڈالرز کے جرمانے سے نجات ملی۔ حکومت نے ہمیں ریکوڈیک کے ساتھ ایک اراضی دی ہے جس پر ہم فی الحال کام کررہے ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں