قومی اقتصادی پالیسی کی کوئی سمت نظر نہیں آرہی،سلیمان چاولہ

حکومت اور کاروباری برادری کے درمیان مشاورتی عمل بند ہے، قائم مقام صدرایف پی سی سی آئی

  قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی سلیمان چائولہ نے ملک کے معاشی منتظمین کی ٹیم کو سمت کے فقدان پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہو ں نے کہا کہ حکومت اور کاروباری برادری کے درمیان مشاورتی عمل بند ہو چکا ہے اور آئی ایم ایف معاہدے کی بحالی میں کسی بھی پچھلے پروگرام سے زیادہ طویل انتظار کی مدت حائل ہو چکی ہے۔

انہوں نے ایف پی سی سی آئی کے اس موقف کو دہرایا کہ دنیا کی زیادہ تر بڑی معیشتوں میں علاقائی تجارت کا حصہ 70 فیصد سے زیادہ ہوتا ہے جبکہ علاقائی ممالک کے ساتھ پاکستان کی تجارت کبھی بڑے پیمانے پر شروع ہی نہیں ہو سکی اور اب لگتا ہے کہ یہ ریورس گیئر میں چلی گئی ہے۔ سلیمان چاو لہ نے مزید کہا کہ برآمدات اور ترسیلاتِ زر ملک کے لیے زرمبادلہ پیدا کرنے کے دو اہم ترین ذرائع میں بڑی کمی واقع ہو چکی ہے کیونکہ مالی سال 2023 کے پہلے آٹھ مہینوں میں پاکستان کی برآمدات نو ریجنل تجارتی شراکت دار ممالک کے لیے 18.3 فیصد کم ہو گئی ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ پاکستان کی کل ٹیکسٹائل ایکسپورٹس میں ماہانہ بنیادوں پر فروری 2023 میں 30 فیصد کی کمی ہو ئی ہے اور گزشتہ آٹھ مہینوں میں سالانہ بنیادوں پر 11 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ سلیمان چاو لہ نے حکومت کو واضح طور پر آگاہ کیا ہے کہ ایف پی سی سی آئی اپنے خدشات و تحفظات کے ساتھ اس بات کاقریبی مشاہدہ کر رہی ہے کہ برآمدات میں کمی بتدریج بڑھتی ہی جا رہی ہے جیسا کہ سالانہ بنیادوں پر، اکتوبر 2023 میں 3.25 فیصد کمی دیکھی گئی، نومبر میں 17.6 فیصد، دسمبر میں 16.3 فیصد اور جنوری 2023 میں برآمدات میں کمی 15.4 فیصد دیکھی گئی۔

انہو ں نے بتایا کہ پاکستانی ایکسپورٹ میں یہ ایک معاشی پالیسی کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے اور ایک وسیع لیکن موثر مشاورتی عمل کے ذریعے اس مسلسل گراوٹ کو روکنے کی ضرورت ہے۔ سلیمان چاو لہ نے نوٹ کیا کہ جنوری 2023 میں ترسیلات زر 32 ماہ کی کم ترین سطح پر آگئیں اور صرف 1.89 ارب ڈالررہیںجس کی وجہ سے اب تک ملک کے معاشی منتظمین کو انتہا ئی فکر مند ہو جانا چاہیے تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے کل زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت 15 ارب ڈالر کے قریب ہوسکتے تھی؛ اگر حکومت ایکسٹرنل اکاو نٹ کے صرف ایک پہلو ہی کو سنبھال لیتی، یعنی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر،اگر سالانہ بنیادوں پرتر سیلات زر میں تقریباً 20 فیصد کی کمی واقع نہ ہوئی ہوتی تو یہ رقوم زر مبادلہ کے ذخائر بڑھاتے ہوئے آئی ایم ایف کے 9ویں رویو کے کامیاب ہونے میں اب تک ایک فیصلہ کن عنصر ثابت ہو چکے ہوتے۔

سلیمان چائولہ نے آگاہ کیا کہ کمرشل بینکوں کے ذخائر ملانے کے بعد پاکستان کے کل ذخائر محض 10ارب ڈالر سے اوپر ہیں اور اسٹیٹ بینک کے پاس صرف 4.6ارب ڈالر موجود ہیں اور صرف اسٹیٹ بینک کے ذخائر ہی واقعی اہمیت رکھتے ہیں۔ایف پی سی سی آئی نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت بیرونی کھاتوں کے انتظام کے حوالے سے کچھ شفافیت لائے اور بتائے کہ آئی ایم ایف کے اسٹاف لیول ایگریمنٹ میں اصل رکاوٹ کیا ہے۔ سلیمان چائولہ نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا جانے کے بعد ملکی معیشت میں استحکام لا نے کے لیے اپنے اگلے اقدامات کا عملی خاکہ بھی کاروباری برادری کے ساتھ شیئرکرے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں