ملکوں کو بحران سےآئی ایم ایف کا قرضہ نہیں بلکہ اچھی لیڈر شپ نکالتی ہے,میاں زاہد حسین

ایک سو ستر ممالک کو آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں۔ اگر پالیسیاں درست ہوں تو ملک میں مالی بحران کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ملکوں کو بحران سے آئی ایم ایف کا قرضہ نہیں بلکہ اچھی لیڈر شپ نکالتی ہے۔ اگر لیڈرشپ اصولوں پر چلے آمدن سے زیادہ اخراجات نہ کیے جائیں تو ملک میں سنگین مالی بحران آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آئی ایم ایف کے در پر کشکول لے کر کھڑے رہنے والے ملکوں کی تعداد انگلیوں پرگنی جا سکتی ہے جبکہ ایک سو ستر کے قریب ممالک کو اس ادارے کے در پر جانے کی کبھی نوبت نہیں آئی۔ میاں زاہد حسین نےکاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ غیر ذمہ دار ممالک شاہانہ اخراجات، سرکاری اداروں کے نقصانات، بجلی و گیس چوری اوراشرافیہ پروری کےذریعے خزانہ خالی کر دیتے ہیں اور اسکے بعد خود ہی آئی ایم ایف جیسے اداروں سے قرضے مانگتے پھرتے ہیں۔ سیاستدان قرضوں کے لئے ایسے اداروں کو ملکی معاملات میں مداخلت کی دعوت دے دیتے ہیں جس کے بعد اسکی سخت شرائط پر شور مچاکرعوام کی نظرمیں اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ غلط اقتصادی فلسفوں نے پہلے سری لنکا کو دیوالیہ کر دیا اور اب دیگر ایسے ملکوں کی باری ہے جہاں سیاست کو ہر صورت میں معیشت پر ترجیح دی جاتی ہے جس کی وجہ سے انکی معیشت تباہ اور کشکول ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ڈیفالٹ کا خطرہ سر پر ہونے کے بعد ان کے پاس ہر جائز و ناجائز حکم پر سر جھکانے کےعلاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا اوران تمام معاملات کا سارا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑتا ہے جن کا ان تمام معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ کمزور ممالک کو مذاکرات میں واضح پیغام دیا جاتا ہے کہ یا ت ہماری ساری شرائط تسلیم کرو یا پھر دیوالیہ ہونے کا اعلان کردوکیونکہ اس کے علاوہ تیسرا آپشن موجود نہیں ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2018 سے جون2022 تک کرنسی کی قدر کم کر کے پاکستان پر عائد قرضوں میں بیٹھے بٹھائے 9712 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اس دوران شرح سود بڑھانے سے قبل ادا سود کی مد میں 2835 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ صرف ان دو پالیسیوں کی وجہ سے ملک پرقرضے اور سود کی ادائیگیوں کی مد میں 12548ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ ان چار سالوں کے دوران اگر ڈالر کی قیمت کا اوسط نکالا جائے تو یہ 79 ارب ڈالر بنتا ہے یعنی ایک روپیہ قرض لئے بغیر ملک پرعائد قرضوں میں اتنا اضافہ کیا گیا ہے۔

——

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں