تاریخی سیلاب:   رعایتی قرضے انٹر نیشنل کمیونٹی پر پاکستان کا حق ہے عرفان اقبال شیخ

 صدرایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ رعایتی قرضوں کے لیے عالمی برادری کے سامنے پاکستان کا کیس پیش کرنے میں ناکام رہی ہے؛ کسی قسم کی گرانٹس یا براہ راست قرض معافی تو بعید از قیاس ہی رہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ حکومت کی طرف سے ذمہ داری کا مکمل فقدان اور نااہلی ہے۔ عرفان اقبال شیخ نے وضاحت کی کہ ایک ہی حکومت کے دو وزرائے خزانہ کے آئی ایم ایف پروگرام کے مقابلے میں مختلف نقطہ نظر کی وجہ سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو دوہرا دھچکا لگا ہے اور یہ سب کچھ ایک سال سے بھی کم عرصے میں ہوا ہے۔ انہوں نے سوا ل اٹھا یا ہے کہ دنیا کا کون سا ملک اپنے بیرونی اکاؤنٹ کو اس طریقے سے مینج کرتا ہے۔عرفان اقبال شیخ نے زور دیا کہ حکومت کو اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کے تمام بڑے برآمدای  سیگمنٹ گزشتہ 7 ماہ سے زوال کا شکار ہیں اور پاکستانی برآمدات کی اہم بنیاد یعنی ٹیکسٹائل میں فروری میں 30 فیصد اور 7 ماہ کے دوران مجموعی طور پر 11 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔صدر ایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے زور دیتے ہو ئے کہا کہ IT اور ITeS کی برآمدات نے بھی ایک انتہائی تشویشناک رجحان ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے؛ جیسا کہ FY23 کی پہلی دو سہ ماہیوں کے دوران وہ چھ ماہ کے لیے 1.3 بلین ڈالر پر جمود کا شکار رہیں اور اس سہ ماہی میں بھی یہی رجحان یا حتیٰ کہ ان میں کمی  بھی ہو سکتی ہے

 حکومت آئی ٹی اور آئی ٹی ای ایس کمپنیوں سے بڑے وعدے کر چکی ہے؛ لیکن اس کے اپنے ادارے جیسے کہ ایس بی پی اور ایف بی آر ملک کے وزیراعظم تک کی ہدایات پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔صدرایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے اپنے گہرے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ کمرشل بینکوں کی جانب سے پاکستان کی کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کو غیر ملکی کرنسی میں قیاس آرائیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ سوال بھی کیا کہ ان پانچ کمرشل بینکوں کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی جو اسٹیٹ بینک کی انکوائری میں قیاس آرائی پر مبنی کرنسی تجارت کے مجرم پائے گئے ہیں۔ عرفان اقبال شیخ نے یاد دلایا کہ اسٹیٹ بینک کے موجودہ گورنر نے جنوری کی تیسرے ہفتے میں ایف پی سی سی آئی ہیڈ آفس کے اپنے ہائی پروفائل دورے کے دوران اسٹیٹ بینک کی انکوائری  کے نتائج کے مطابق کارروائی کا وعدہ کیا تھا؛ لیکن اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی کاروباری برادری کو بالعموم اور درآمد کنندگان کو بالخصوص کوئی سہولت دینے کی پیشکش کی گئی ہے۔ عرفان اقبال شیخ نے اپنے مؤقف کا اعادہ کیا کہ  250 ایسوسی ایشنز اور چیمبرز کی اپیکس باڈی کے سر براہ ہو نے کے ناطے اور ان کے فیڈ بیک کی بنیاد پر وہ یہ کہہ سکتے ہیں

 کہ برآمدات پر مبنی صنعتوں اور زراعت کے شعبے کو ٹارگیٹڈ مداخلتوں اور سہولیاتی اقدامات کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غذائی عدم تحفظ پاکستان کے لیے ایک وجودی خطرہ بننے جا رہا ہے۔صدر ایف پی سی سی آئی نے کہا کہ سالانہ قرضوں کی ادائیگیوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے تمام بیرونی قرضوں پر کم از کم اگلے 3 سے 5 سالوں کے لیے پروڈنشل ری سٹرکچرنگ اور ری شیڈولنگ کا آغاز کیا جانا چاہیے؛ما سوائے بین الاقوامی کمرشل بینکوں اور یورو بانڈز کے قرضوں کے تاکہ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کی ساورن یا خودمختار قرضوں کی ریٹنگ کی بھی حفاظت کی جا سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں