معیشت کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے یکجہتی اور سیاسی استحکام ضروری ہے، اشفاق تولا

وزیر مملکت اور چیئرمین ریفارمز اینڈ ریسورس موبلائزیشن کمیشن ( آرآرایم سی) اشفاق تولا نے کہا ہے کہ پاکستان 1998، 2008 اور 2013 میں بھی سنگین معاشی بحرانوں کا شکار رہا لیکن سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ یکجہتی کی وجہ سے کامیابی کے ساتھ ان بحرانوں سے باہر آیا جو ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کا واحد راستہ ہے۔

ملک کو درپیش موجودہ بحران انوکھے ہیں جو ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہیں اور اس کی وجہ ہماری اپنی اندرونی کمزوریوں ہیں۔ٹکڑوں میں بنٹ کرکھیل نہیں جیتا جا سکتا اور سیاسی استحکام ہی اس کھیل کا نام ہے لہذاہم سب کو مل کر حالات سے نمٹنے کے لیے کام کرنا ہوگا کیونکہ معاشی استحکام ہمیشہ سیاسی استحکام سے جُڑاہوتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر منگل کو منعقدہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا، وائس چیئرمین بی ایم جی انجم نثار اور جاوید بلوانی، صدر کے سی سی آئی محمد طارق یوسف، سینئر نائب صدر توصیف احمد، نائب صدر حارث اگر، سابق صدور اور کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔اشفاق تولا نے کہا کہ مجموعی طور پر صورتحال آئی ایم ایف کے ساتھ اتنی زیادہ آرام دہ نہیںجو منی بجٹ اور دیگر سخت اقدامات کے اعلان کے علاوہ برآمدی صنعتوں کو دی جانے والی بجلی کی سبسڈی اور دیگر سبسڈی کو واپس لے لئے جانے کی بنیادی وجہ ہے۔

معیشت صرف ان ممالک میں پروان چڑھتی ہے جہاں سخت فیصلے لیے جاتے ہیں کیونکہ آسان فیصلے کبھی معاشی خوشحالی کی راہ ہموار نہیں کرتے۔روپے کی قدر میں کمی اور روس یوکرین جنگ کے باعث پیدا ہونے والے بحران نے بھی ہر ایک کی سوچ سے کہیں زیادہ صورتحال کو مزید خراب کرنے میں کافی حد تک کردار ادا کیا۔انہوں نے سیلز ٹیکس ریفنڈز کے اجراء میں تاخیر پرکہا کہ یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے جس پر وہ ذاتی طور پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے بات کریں گے اور اس کے حل ہونے تک کوششیں جاری رکھیں گے۔

اسحاق ڈار ایک عوامی شخصیت ہیں لیکن وہ آئی ایم ایف کے ساتھ کافی عرصے سے مصروف رہے ہیں اسی وجہ سے وہ تاجر برادری کے نمائندوں سے ملاقات نہیں کر پارہے۔وزیر خزانہ اپنی موجودہ مصروفیات کو ختم کرتے ہی یقینی طور پر کے سی سی آئی کے ساتھ بات چیت کریں گے۔انہوں نے خام مال کی درآمدات میں رکاوٹ کے مسئلے پر کہا کہ خام مال کے درآمد کنندگان کو درپیش مسائل بہت جلد بہتری کی طرف جائیں گے۔

انہوں نے گیس ٹیرف میں اضافے کے غیر آئینی اقدام پر کے سی سی آئی کے نقطہ نظر کی مکمل حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بھی یہی رائے ہے کہ گیس ٹیرف میں اضافے کا اطلاق یکم جنوری 2023 سے نہیں ہونا چاہیے اور انہوں نے کے سی سی آئی کا پیغام متعلقہ حکام تک پہنچا دیا ہے۔اس موقع پر چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا نے نشاندہی کی کہ اگرچہ حکومت کو زرمبادلہ کی ضرورت ہے جو برآمدات میں بہتری اور درآمدات کے متبادل کو فروغ دے کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ایسا بالکل نہیں ہو رہا کیونکہ حکومت نے سہولت فراہم کرنے کے بجائے ریفنڈز کا اجرا روک دیا گیا ، خام مال کی درآمدات کو روک دیا گیاہے، پانچ ایکسپورٹ اورینٹڈ سیکٹرز سے سبسڈی واپس لے لی ہے جس کی وجہ بجلی کے ٹیرف میں 70 فیصد اضافہ ہوا ، سود کی شرح بھی 20 فیصد کر دی ہے اور گیس ٹیرف میں یکمشت جنوری سے35 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے جو خالصتاً آئین پاکستان کے خلاف ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ اس صورتحال میں برآمدات کو بڑھانا اور درآمدات کے متبادل کی صنعتیں لگانا کیسے ممکن ہے؟ جن پالیسیوں پر عمل کیا جا رہا ہے ان سے بہتری نہیں آئے گی لیکن برآمدات میں کمی ضرور آئے گی۔انہوں نے عوام پر مہنگائی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے حکومت سے درخواست کی کہ خام مال، پلاسٹک، فارماسیوٹیکل مصنوعات اور اور اس سے متعلقہ اشیاء وغیرہ بغیر کسی رکاوٹ درآمد کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے زور دیا کہ حکومت فوری طور پر سیلز ٹیکس ریفنڈز کا اجراء شروع کرے جس میں مزید تاخیر ہوئی تو پاکستان کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا۔وزارت خزانہ اور تاجر برادری کے درمیان رابطہ تقریباً ختم ہو چکا ہے کیونکہ انہیں حالات کے بارے میں اپ ڈیٹ نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی انہیں گفت وشنید کا حصہ بنایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے تاجر و صنعتکار برادری میں کافی افواہیں پھیلی ہوئی ہیں۔

فنانس ڈویژن اور تاجر برادری کے درمیان بات چیت ہر قسم کے حالات میں جاری رہنی چاہیے۔کے سی سی آئی کے صدر محمد طارق یوسف نے اشفاق تولا کا خیرمقدم کرتے ہوئے وسائل کو پروڈکٹیو سمت میں متحرک کرنے اور موجودہ ٹیکس دہندگان پر مزید بوجھ ڈالے بغیر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت پر زور دیا۔ٹیکسوں اور محصولات میں متواتر تبدیلیوں سے کاروباری اور صنعتی سرگرمیاں سست پڑ جاتی ہیںلہٰذا کاروبار کو بہتر پوزیشن میں لانے کے لیے کم از کم دو سال کے لیے طویل مدتی پالیسیوں کو لاگو کیا جائے جس میں وہ کاروباری لاگت اور برآمدی لاگت کا جائزہ لے سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں