کاروباردوست اصالحات اور ترسیالت زرمیں ہماری مشکالت کاحل موجود ہے:عرفان اقبال شیخ، صدر ایف پی سی سی آئی

کراچی (9 مارچ 2023 )صدر ایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ پاکستان کی پوری پروگرام کا اب (EFF) کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کا اجتماعی نکتہ نظر ہے کہ آئی ایم ایف کی ایکسٹنڈڈ فنڈ فیسلیٹی کے بعد شروع ہو جانا بھی پاکستان کی معاشی (SLA) طویل عرصے کے بعد کئی ہفتوں سے زیر التواء اسٹاف لیول ایگریمنٹ مشکالت کو حل نہیں کر سکتا اور ہمارے اوپر آنے والے کئی سالوں تک ڈیفالٹ کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ عرفان اقبال شیخ نے بتایا کہ ہمیں اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ یورو بانڈز پاکستان کے بیرونی قرضوں کا صرف 4 فیصد بنتے ہیں؛ جبکہ ان ممالک میں جو کہ ڈیفالٹ کر چکے ہیں اس کی شرح کئی گنا بلند تھی

۔واضح رہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے بعد دیگر تمام بڑے بیرونی قرضوں پر ری اسٹرکچرنگ کا حصول ایک قابل و سمجھدار ماہر اقتصادیات یا وزیر خزانہ کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے اور سیالب کی وجہ سے اقتصادی تباہ کاری کو اس کی بنیاد بنانا چاہیے۔ عرفان اقبال شیخ نے مزید کہا کہ ہمارے معاشی مسائل کا واحد حال کاروبار دوست اصالحات، پالیسیاں اور متفقہ اقتصادی ایجنڈا ہے؛ جس سے تاجر برادری برآمدات میں اضافہ کر سکے، درآمدی متبادل بنائے جا سکیں؛ زرمبادلہ کے ذخائر کی تعمیر کی جا سکے؛ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی صالحیت کو بڑھایا جا سکے؛ مالزمتیں پیدا کی جا سکیں اور ملک کی ترقی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس محصوالت بڑھائے جا سکیں۔ عرفان اقبال شیخ نے بتایا کہ ایف پی سی سی آئی اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ پاکستان کو ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول کو بحال کرنے کے لیے اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل کی ضرورت ہے اور اگلے 15 سالوں کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے اقتصادی ایجنڈے کی تشکیل کو متفقہ طور پر منظور کرنا چاہیے۔صدر ایف پی سی سی آئی عرفان اقبال شیخ نے وضاحت کی کہ ملک کو صرف اپنی بیرونی قر ضہ جات کی ادائیگی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے اگلے 18 سے 24 ماہ میں 20ارب ڈالر سے زیادہ کی کمی کا سامنا ہے اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کا ایک اور پروگرام بھی اتنی زیادہ مالی خسارہ پورا کر سکے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ کاروباری برادری کے ساتھ بیٹھ کر برآمدات کو بڑھانے اور قیمتی زرمبادلہ کے ذخائر کو منطقی طریقے، پائیدار اور ٹھوس انداز میں بڑھانے کی حکمت عملی بنائے۔
صدرایف پی سی سی آئی نے اپنے گہرے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ بینک اب بھی کاروباری برادری سے (SLA) توقع کر رہا ہے کہ وہ درآمدی پابندیوں کے بتدریج اٹھائے جانے کا مزید انتظار کرے گی؛جبکہ اسٹاف لیول ایگریمنٹ واضح طور پر ممکن نظر آرہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس پالیسی سے صنعت، پیداوار اور برآمدات کو مزید نقصان ہورہا ہے۔ عرفان اقبال شیخ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ کاروباری فنانس اور ایکسپورٹ فنانسنگ تک رسائی کو سستی شرح پر ممکن بنایا ارب ڈالر اور5 ITeS اور IT جانا چاہیے۔ مزیدبرآں، ٹیکسٹائل انڈسٹری ایک سال میں باآسانی 25 ارب ڈالر کما سکتی ہے؛ ترسیالت زر سے با آسانی 35 ارب ڈالرساالنہ حاصل ہو سکتے ہیں، اگر درست اقتصادی ایجنڈے کی تکمیل ٹر یڈ اور انڈسٹری کے اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے ساتھ طے کیا جا ئے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ مذکورہ باال تین اہداف درست پالیسیوں کے ذریعے انتہائی مختصر مدت یعنی ایک سال سے بھی کم عرصے میں حاصل کیے جا سکتے ہیں اور یہ پیسہ ملک میں ہی رہے گا اور قر ضوں میں اضافہ بھی نہیں ہو گا۔ عرفان اقبال شیخ نے اس بات کا اعادہ کیا کہ حکومت کو اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیے کہ وہ پاکستان میں جدید انسانی تاریخ کے بدترین، وسیع رقبے پر محیط اور معاشی طور پر انتہائی تباہ کن سیالبوں میں سے ایک کا سامنا کرنے کے باوجود آئی ایم ایف سے کوئی چھوٹ، فائدہ یا رعایت حاصل نہیں کر سکی؛ جبکہ ہمارے نقصانات عالمی سطح پر 30 ارب ڈالر کے لیول پر تسلیم شدہ ہیں۔ عرفان اقبال شیخ نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کی آنے والی 9و یں قسط کے بعد حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ 10ویں اور 11ویں جائزے سے قبل قرضوں کی تنظیم نو کے لیے کثیر الملکی اور دو طرفہ فورمز سے رجوع کیا جائے؛ تاکہ زرمبادلہ پر ادائیگیوں کا بوجھ کم کر کے روپے کو مستحکم کیا جا سکے اور بجٹ میں کچھ گنجائش پیدا کی جا سکے۔واضح رہے کہ 10ویں اور 11ویں جائزے کے اجتماعی طور پر کئے جانے کی توقع ہے۔ انہو ں نے کہا کہ قرضو ں کی ری اسٹر کچرنگ سے پالیسی ریٹ کو نیچے الیا جا سکتا ہے؛ ملکی قرضوں کی ادائیگی کو کم کیا جا سکتا ہے؛ خام مال اور مشینری کی درآمد کو ان کی معمول کی سطح پر بحال کیا جا سکتا ہے اور آنے والے 2 سے 3 سالوں کے لیے قرض کی ادائیگی کے لیے مختص رقم کو کم کر کے انفرا اسٹرکچر، توانائی کے منصوبوں، زراعت میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مالی گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے۔  (SEZs) اور خصوصی اقتصادی زونز

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں