پاکستان میں ہوا اور شمسی توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی کا خرچہ تھرمل پلانٹس کی بجلی کے نصف سے بھی کم ہے، مہر کاشف یونس

وفاقی ٹیکس محتسب کے کوآرڈینیٹر اور کرغزستان ٹریڈ ہاو س کے چیئرمین مہر کاشف یونس نے کہا ہے کہ اس وقت پاکستان میں ہوا اور شمسی توانائی کے پلانٹس سے پیدا ہونے والی بجلی کا خرچہ تھرمل پلانٹس کی بجلی کے نصف سے بھی کم ہے۔ اتوار کو یہاں سٹریٹجک تھنک ٹینک، گولڈ رِنگ اکنامک فورم کے زیراہتمام منعقدہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں سی پیک کا کردار کے موضوع پر ایک روزہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کی لاگت زیادہ مگر آپریشنل لائف نسبتا طویل ہے اور اس کو خرچہ کم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبوں نے جھمپیر کی بنجر زمین کو حقیقی طور پر ونڈ کوریڈور میں تبدیل کر دیا ہے۔ 300 میگاواٹ کی کل پیداواری صلاحیت کے چار ونڈ فارمز قومی گرڈ کو سستی اور صاف توانائی فراہم کر رہے ہیں، سی پیک توانائی منصوبوں نے کم قیمت بجلی کی فراہمی میں اضافہ کر کے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئلہ، ہوا، شمسی اور ہائیڈرو پاور کے یہ منصوبے 6570 میگاواٹ صلاحیت کے حامل ہیں جنہوں نے مالی سال 2020-21 اور 2021-22 میں بالترتیب 28549.94 گیگا واٹ اور 25772.48 گیگا واٹ بجلی پیدا کی جو بجلی کی مجموعی پیداوار کا 22.03 فیصد اور 18.37 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی گرڈ میں اوسطا 20 فیصد سالانہ اضافے نے ملک میں لوڈ شیڈنگ کے بڑھتے ہوئے مسئلہ کو کم کیا ہے اور خاص طور پر پاکستان میں برآمدی صنعتوں کو تقویت دی ہے۔

مہر کاشف یونس نے سرکاری حقائق اور اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے توانائی کے شعبہ کا بنیادی طور پر انحصار درآمدی ایندھن تیل اور ایل این جی پر ہے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر پر بہت زیادہ بوجھ پڑ رہا ہے اور اس نے صنعتی ترقی کو بھی متاثر کیا ہے۔ اب جبکہ سی پیک کے توانائی منصوبوں نے مہنگی توانائی کی جگہ لے لی ہے، گزشتہ پانچ سال میں فرنس آئل اور ڈیزل کی بجائے کوئلہ اور قابل تجدید ذرائع کی پیداوار سے پاکستان کی توانائی کی کافی ضروریات کم قیمتوں پر پوری ہو رہی ہیں جس سے برآمدی صنعتوں میں ترقی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی منڈی میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے گذشتہ سال سے لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کے باوجود، سی پیک منصوبے اب بھی مسابقتی شرح پر بجلی فراہم کرتے ہیں۔ گذشتہ سال اکتوبر میں درآمدی کوئلے پر مبنی سی پیک منصوبوں کی بجلی کی پیداواری لاگت 18.5روپے فی کلو واٹ آور تھی جبکہ فرنس آئل اور آر ایل این جی سے بجلی کی پیداواری لاگت 34.0 روپے اور 31.0 روپے فی کلو واٹ آور تھی۔ انہوں نے کہا کہ روس یوکرین جنگ کے بعد ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور توانائی کے نئے منظر نامے کی وجہ سے پاکستان کو اپنے مقامی وسائل سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس وقت سب سے موثر حل تھر کا کوئلہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر اور چیئرپرسن پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن انجینئر ڈاکٹر شاہد منیر کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تھر میں کوئلے کے دریافت شدہ ذخائر تقریبا 175 بلین ٹن ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں