پاکستانی معیشت کو طویل سیاسی بحران کے چیلنج کا سامنا

 پاکستانی معیشت کو طویل عرصے سے سیاسی بحران کے چیلنج کا سامنا ہے جب کہ ہر گزرتا دن ڈیفالٹ کی ایک نئی افواہ لے کر آتا ہے۔

میڈیا کے مبصرین، تجزیہ کاروں اور یہاں تک کہ ماہرین اقتصادیات نے کئی مواقع پر پاکستان اور سری لنکا کے درمیان مماثلت کی صورت میں معیشت کی تاریک تصویرکشی کی ہے۔ تاہم یہ تصور آج تک حقیقت سے مکمل ہم آہنگ مثال کے طور پر پہلے کموڈیٹی سپر سائیکل اور بعد میں روس۔ یوکرین جنگ نے ترقی پذیر ممالک کے اقتصادی منتظمین کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کیں۔ اہم اجناس اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے بہت سے ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا۔نہیں رہا۔ بین الاقوامی سیاسی ماحول معیشت پر بہت زیادہ اثر انداز ہو رہا ہے۔

سرمائے کی کمی سے دوچار ترقی پذیر معیشتیں عوام کو سبسڈی فراہم نہیں کر سکیں، یہاں تک کہ نسبتاً مستحکم ممالک بھی گلوبلائزڈ دنیا میں سبسڈی دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ان حالات کی وجہ سے سیاسی انتشار بڑھ معیشت کے لیے بیلنس آف پیمنٹ (BOP) حدبندی کا کام کرتا ہے کیونکہ یہ جی ڈی پی کی نمو کی بالائی حد کے طور پر کام کرتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ حد کا مطلب ہے کہ یہ BOP کی مشکلات کے بغیر قابل حصول GDP کی زیادہ 2006ء میں یہ حد 4.5 فیصد کے لگ بھگ تھی، جو اب کم ہو کر 3.8 فیصد رہ گئی ہے۔ یہ کمی اسٹرکچرل اصلاحات کی عدم موجودگی کی وجہ سے واقع ہوئی۔ زیادہ سے زیادہ بالائی حد میں کمی معیشت میں اسٹرکچرل کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔سے زیادہ سطح ہے۔رہا ہے اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔

اگر ہم معیشت کو اس سطح سے آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تو BOP ایک رکاوٹ بن جائے گا۔ اس وجہ سے کوئی بھی ملک براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI)/فارن پورٹ فولیو انویسٹمنٹ کی شکل میں غیرملکی سرمایہ وطن عزیز میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں معیشت کو درپیش ’’بی او پی‘‘ کی رکاوٹ کو کم کرنے پر توجہ نہیں دے سکیں۔ ان حکومتوں کے پاس دو قلیل مدتی حل تھے۔ اولاً وہ معیشت کو سست کر سکتے تھے اور اسے بالائی حد سے نیچے چلا سکتے تھے۔ ثانیاً یہ حکومتیں بین الاقوامی مالی امداد کا سہارا لے سکتی تھیں۔کاری پر انحصار کرتا ہے یا پھر غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا شکار ہوجاتا ہے۔

ہماری حکومتوں نے بحران سے بچنے کے لیے دوسرے آپشن کا سہارا لیا۔ ان حکومتوں نے قرضوں کی ادائیگی اور درآمدی ادائیگیوں کے لیے بیرونی فنانسنگ حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے پروگراموں کا سہارا لیا۔ان پروگراموں کی منظوری نے دیگر کثیرجہتی، دو طرفہ اور تجارتی فنانسنگ کے لیے راہ ہموار کی۔ ان تمام میں تجارتی فنانسنگ سب سے مہنگی ہے۔

بیشتر ماہرین اقتصادیات اور مبصرین کا خیال ہے کہ بے روزگاری کی سطح کو کم کرنے کے لیے معاشی شرح نمو 6 سے 7 فیصد تک ہونی چاہیے۔ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں نے بالائی حد کو نظر انداز کر کے شرح نمو کو 6 فیصد کی سطح سے آگے بڑھا دیا۔ انہوں نے یہ کام سیاسی فوائد کے حصول کے لیے کیا۔موجودہ حکومت نے ’’بی او پی‘‘ کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے بحران سے بچنے کے لیے پھر آئی ایم ایف سے رجوع کیا۔

نئی حکومت کے نمائندوں کا یہ موقف ہے کہ پچھلی حکومت نے معیشت کو تباہی کے دہانے پر چھوڑ دیا تھا، اب ہمیں ملکی مفاد میں سخت فیصلے کرنے ہوں گے اور حالات میں بتدریج بہتری آئے گی۔ مختصراً یہ کہ سیاست اور معیشت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور انہیں الگ نہیں کیا جاسکتا۔

موجودہ سیاسی عمل سست اور ہنگامہ خیز ہے۔ سیاسی استحکام سے معاشی مسائل میں کمی آسکتی ہے اور اس میں کوئی بھی خلل طویل مدتی نقصانات سے ہمکنار کرسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں