روس یوکرین جنگ پاکستان کی کمزور معشیت پر منفی اثرات ڈال رہی ہے ،مہرکاشف یونس

وفاقی ٹیکس محتسب کے کوآرڈینیٹر مہر کاشف یونس نے کہا کہ روس یوکرین جنگ کے پاکستان کی کمزور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس کے فوری مضمرات بلند افراط زر، کم شرح نمو، سپلائی چین میں رکاوٹ، خام مال و اشیاء، توانائی، خوراک اور عالمی نقل و حمل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی صورت میں ظاہر ہو رہے ہیں۔

جمعرات کو یہاں گولڈ رنگ اکنامک فورم کے زیراہتمام ”روس یوکرین تنازعہ کے پاکستان پر اثرات“ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپلائی چین میں رکاوٹیں بہت زیادہ ہیں اور 2023 تک ان کا کاروباری منظرنامے کا نمایاں حصہ رہنے کا امکان ہے۔ افراط زر میں اضافہ جاری رہے گا اور یہ ایک طویل مدتی مسئلہ ثابت ہو گا، 12 ماہ کے عرصے میںافراط زر کی متوقع اوسط شرح موسم خزاں میں 2.7 فیصد سے بڑھ کر 5.9 فیصد ہو جائے گی۔ مالیاتی آئوٹ لک میں شدید کمی کے ساتھ غیر یقینی صورتحال بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ غیر یقینی اقتصادی ماحول اور بڑھتے ہوئے آپریٹنگ اخراجات کی وجہ سے آپریٹنگ مارجن میں تیزی سے کمی آ سکتی ہے کیونکہ سٹیل اور تعمیرات سمیت تمام شعبوں میں نمایاں گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔ انہوں نے اس خدشہ کا اظہار کیا کہ افراط زر کی شرح میں اضافہ جاری رہے گا کیونکہ روس یوکرین تنازعہ مہنگائی میں اضافے کا سبب بنا ہے اور افراط زر کو ہی مستقبل کے سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

مہر کاشف یونس نے کہا کہ غیر یقینی صورتحال بلند ترین سطح پر ہے کیونکہ مالی اور معاشی غیر یقینی کی سطح اب بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جو کہ کورونا کے دوران ریکارڈ کی گئی سطح سے بھی زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپلائی چین کے اہم مسائل خام مال، درمیانی اشیاء اور نقل و حمل کی بڑھتی ہوئی لاگت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس تنازعہ کے فوری اثرات مہنگائی میں تیزی سے اضافہ، نمو میں کمی اور سپلائی چین میں رکاوٹوں کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ تنازعہ توانائی اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنا ہے جس سے مہنگائی کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور معاشی ترقی دبائو کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ گندم کی عالمی برآمدات میں روس اور یوکرین کا حصہ تقریباً ایک تہائی ہےاس لئے اس جنگ کی وجہ سے غذائی قلت پیدا ہوئی ہے جس نے خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ میں اضافہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا سب سے زیادہ اثر غریب ممالک پر ہوا ہے جو پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی جیسے دیگر مسائل سے دوچار ہیں۔ مہر کاشف یونس نے کہا کہ موجودہ معاشی منظر نامے میں نجی شعبے کی حالت زار حکومت کی فوری توجہ کی متقاضی ہے اور اس کے اثرات کو کم کرنے اور صنعت کو تباہی سے بچانے کے لیے ریلیف پیکج کی اشد ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں