ای ایم ایف کے معاہدہ کے باوجودروپیہ مسلسل کمزور ہو رہا ہے۔میاں ذاہد حسین

اقتصادی ترجیحات میں بنیادی تبدیلی کے بغیر ملک کا چلنا مشکل ہے۔ بعض ممالک نے پاکستان میں ڈالر جمع کروانے کا وعدہ نہیں نبھایا۔
نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ آئی ایم ا یف سے معاہدے کے باوجود روپیہ مستحکم ہونے کے بجائے کمزور ہو رہا ہے۔ روپے کی کمزوری ملک کے سیاسی ومعاشی حالات کی عکاسی کر رہی ہے اور اس پر دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر دو سو چالیس روپے سے دو سو تیرہ روپے تک گرنے کے بعد دوبارہ سنبھل رہا ہے اور اب ایک ڈالر دو سو چوبیس روپے میں فروخت ہو رہا ہے بعض عرب ممالک نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں چند ارب ڈالر جمع کروانے کا وعدہ تاحال نہیں نبھایا۔ ملک میں ڈالر کی کمی کو روکنے کے لئے غیر ضروری درامدات کے ساتھ کچھ ضروری درامدات پر بھی پابندی عائد کئی گئی جس سے اگست میں تین ارب ڈالر کی درآمدات میں کمی ہوئی مگر درآمدات کو زیادہ عرصے تک روکنا ممکن نہیں۔

ایسے اقدامات کا فائدہ عارضی ہوتا ہے اور اگر روپے کو حقیقی بنیادوں پر مستحکم کرنا ہے تو پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی لانا ہو گی جو سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ سیلاب سے قبل شرح نمو ساڑھے تین فیصد رہنے کا تخمینہ تھا جو اب مزید کم ہو سکتی ہے۔ جبکہ امریکہ اور یورپ میں مالی صورتحال غیر تسلی بخش ہے جس سے برامدات متاثر ہو کر ملکی آمدنی اور جی ڈی پی پر اثر انداز ہونگی۔ پاکستان میں فصلوں کی تباہی کے بعد ایران اور افغانستان سے بڑے پیمانے پر سبزیاں اور پھل درامد کئے جا رہے ہیں جبکہ چار ملین ٹن گندم امپورٹ کرنے کا بھی تخمینہ ہے۔ جس سے روپے پر اثر پڑ رہا ہے جبکہ روپے کو سب سے زیادہ نقصان سیاسی عدم استحکام نے پہنچایا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ اس ساری صورتحال کا حل بہتر گورننس، ترجیحات کی تبدیلی، ناکام سرکاری اداروں کی بندش یا فروخت، بجلی چوری اور ترسیل میں نقصانات کا خاتمہ اور ٹیکس کا نظام بہتر بنانے میں ہے، ان اصلاحات کے نتیجے میں 20 ارب ڈالر سالانہ بچائے جا سکتے ہیں۔ جبکہ متبادل توانائی اور زراعت میں بنیادی اصلاحات کے ذریعے بھی مزید 15 ارب ڈالر کی بچت ممکن ہے۔ دنیا میں سب سے کم ٹیکس ادا کرنے کا اعزاز حاصل کرنے اور کئی دہائیوں سے اپنی آمدنی سے زیادہ اخراجات کرنے والا ملک کب تک ٹوپی گھما کر قرضوں پر چل سکتا ہے۔


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں