انڈس بیسن اریگیشن سسٹم پر منحصر زمینوں میں سیم و تھور سے 2 ملین ہیکٹر متاثر ہیں۔ عرفان اقبال شیخ صدر ایف پی سی سی آئی

کراچی: ایف پی سی سی آئی کے صدر عرفان اقبال شیخ نے کہا ہے کہ ہمیں ایک موثراور جدید ڈی سیلینائزیشن کے انتظام کے نظام کی ضرورت ہے؛ کیونکہ انڈس بیسن میں 20 لاکھ ہیکٹر اراضی نمکیات سے متاثر ہوچکیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے غذائی تحفظ کا معاملہ ہے۔ عرفان اقبال شیخ نے وضاحت کی کہ ٹائل ڈرینج نمکین اور پانی سے بھری ہوئی زرعی زمینوں کی بحالی اور دوبار سے قابل استعمال بنانے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ انہوں نے اپنے گہرے خدشات کا اظہار کیا کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان سالانہ 10 بلین ڈالر سے زائد کی غذائی مصنوعات درآمد کرتا ہے اور ہمیں اپنے زرمبادلہ کے ذخائر، روپے کی قدر پر پڑنے والے دباؤ کو کم کرنے اور ساتھ ہی ساتھ، بین الاقوامی غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے سے عوام کو بچانے کے لیے خوراک کی درآمدات میں درآمدی متبادل کے لیےبہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

ایف پی سی سی آئی کے سربراہ نے کہا کہ زمینی پانی کا بہتر انتظام صحت مند، خوراک کے اعتبار سے محفوظ، معاشی طور پر متحرک اور سرسبز پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے۔ پاکستان کا انڈس بیسن ایریگیشن سسٹم دنیا کا سب سے بڑا انسان کا بنایا ہوا زیر زمین پانی ریچارج سسٹم ہے۔ تاہم، موجودہ پانی کے انتظام کا ماڈل اس کی عکاسی نہیں کرتا۔ انجینئر ایم اے جبار، نائب صدر ایف پی سی سی آئی، نے اس بات پر زور دیا کہ انڈس بیسن ایریگیشن سسٹم پر منحصر 35 سے 40 فیصد زرعی اراضی پہلے ہی کھاری اور آبی بن چکی ہے۔

اس کے باوجود، صوبائی اور وفاقی حکومتی ادارے صورتحال کی سنگینی کا جائزہ نہیں لے رہے ہیں۔ ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ماحولیات کے کنوینر پروفیسر ڈاکٹر وقار حسین نے کہا کہ سندھ کو سمندری پانی کے داخلے اور زمین کے انحطاط کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ مزید برآں، پاکستان اپنے زیر زمین آبی ذخائر تیزی سے استعمال کر رہا ہے؛ جو کہ مزید نہیں چل سکتا۔ انہوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے نیشنل گراؤنڈ واٹر ریگولیٹری پالیسی بنانے کی تجویز پیش کی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں