پیداواری لاگت بڑھنے سے چھوٹے کاشتکار زمین بیچنے پر مجبور

مہنگائی سے جہاں عام شہری بری طرح متاثرہورہے ہیں وہیں کاشتکاروں کے لیے بھی مشکلات بڑھ گئی ہیں جب کہ چھوٹے کاشت کار کھیتی باڑی چھوڑکرزمینیں بیچنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

زرعی ماہرین کے مطابق پیداواری لاگت بڑھنے سے چاول سمیت دیگر فصلوں، سبزیوں اورچارہ جات کی نا صرف قیمت میں اضافہ ہو گا بلکہ پیداوار میں کمی کا خدشہ ہے، مہنگائی میں مسلسل اضافے اور موسمیاتی تبدیلوں کا مقابلہ کرنے کیلیے سمارٹ ایگری کلچر ٹولزاپنانا ہوں گے تاکہ اخراجات کم کرکے پیداواربڑھائی جا سکے۔ لاہور، قصور، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ میں ان دنوں چاول کی فصل کاشت کی جا چکی ہے تاہم کسان پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے پریشان ہیں۔

کاشتکار سردار سیف اللہ نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے کہا بدقسمتی سے زراعت کو انتہائی مشکل بنا دیا گیا۔ ڈے اے پی کا ریٹ 10ہزار 600 روپے، نائٹروفاس 6 ہزار 500 روپے اور یوریا کا سرکاری ریٹ 1850 روپے ہے لیکن قلت کی وجہ سے 2500 روپے میں ملتی ہے، جن کے پاس تین چار ایکڑ زمین ہے وہ ہائوسنگ اسکیموں کوبیچ رہے ہیں، جولوگ نہری پانی استعمال کرتے ہیں انہیںکچھ فائدہ ہوجاتا ہے لیکن جوٹیوب ویل کا پانی استعمال کرتے ہیں وہ مہنگا پڑتا ہے۔

نارووال کے کاشتکار فرحان شوکت ہنجرا کہتے ہیں سیاسی حکومتوں کی ترجیحات بدلنے سے زراعت تنزلی کا شکار ہوئی اور یہ سلسلہ جاری ہے، اب زرعی رقبے سکڑتے اور ہائوسنگ اسکیمیں پھیلتی جا رہی ہیں، ہمارے لیے شرم کامقام ہے زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں 30 لاکھ میٹرک ٹن گندم امپورٹ کرنا پڑی ہے، کاشتکار کا کوئی پرسان حال نہیں۔

زرعی ماہر عامرحیات بھنڈارا نے کہا دنیا میں زرعی شعبے کو چیلنجوں کا سامنا ہے، بڑھتی ہوئی قیمتوں اورموسمیاتی تبدیلی نے اس شعبے کو متاثر کیا ہے۔ پاکستان اس لئے زیادہ متاثرہوا ہمارے ہاں زرعی شعبے میں تحقیق اور ڈویلپمنٹ پر کام نہیں کیا گیا ہے۔ کھاد، بجلی، ڈیزل، بیج کی قیمتوں میں اضافے نے چھوٹے کاشتکاروں کے لیے مشکلات بڑھا دی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں