ملتوازن ادائیگی کے بحران کا شکارکی معیشت پھر

 پاکستانی معیشت درآمدات کی مد میں زائد ادائیگیوں اور قرضوں کی واپسی کی وجہ سے ایک بار پھر توازن ادائیگی (بیلنس آف پیمنٹ) کے بحران میں پھنس چکی ہے۔

حکومت اس بحران سے نکلنے کیلیے آئی ایم ایف سے 6 ارب  ڈالر کے قرضہ پروگرام کی بحالی کیلیے مذاکرات کے ساتھ ساتھ دوست ممالک سے بھی رابطے کررہی ہے تاہم نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈین اور  پروفیسر ڈاکٹر اشفاق حسن خان، جو آئی ایم ایف کے پروگرام کو حل کے بجائے ایک مسئلہ  ہی سمجھتے ہیں، نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے اس بحران سے نکلنے کے لیے کچھ تجاویز دی ہیں۔ ڈاکٹر اشفاق حسن خان کا کہنا تھا کہ  اس  وقت توازن ادائیگی ہی واحد درپیش مشکل ہے۔

اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھنے کے باوجود پاکستان پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں اضافہ کرتا رہا ہے۔ رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں توانائی کی درآمدات 14.81 ارب ڈالر  تک پہنچ گئیں جو گذشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 7.55 ارب ڈالر تھیں۔ اسی طرح اس مدت میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 13.17 ارب ڈالر کی سطح  پر پہنچ گیا جو گذشتہ مالی سال کی اسی مدت میں محض 27.5 کروڑ ڈالر تھا۔

ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا کہ توازن ادائیگی کے دوفوری حل ہیں، ایک تو یہ کہ ہفتے میں 5 دن کام کی پالیسی دوبارہ اختیار کر لی جائے، کیوں کہ ایک اضافی دن کی وجہ سے  ٹرانسپورٹیشن اور توانائی کی کھپت کے ضمن میں  اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ملازمین کو 5 دنوں میں سے ایک دن گھروں سے کام کرنے (ورک ٹو ہوم)  کی ہدایت کر دی جائے۔ اس حکمت عملی سے ایک دن کے پٹرول اور بجلی کی بچت ہو گی۔ پوری دنیا یہ مشق کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کی وبا کے دوران  پاکستان میں بھی یہ ماڈل آزمایا جا چکا ہے۔ اس حکمت عملی سے توانائی کی درآمدات میں کمی آئے گی۔ تیسرے نمبر پر غیرضروری  اور لگژری درآمدات کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

علاوہ ازیں مہنگے موبائل فونز کی درآمد اور اسمبلنگ پر 2 سال کے لیے پابندی لگا دی جائے، کیوں کہ اس سے ٹیکسوں کی مد میں  بھاری نقصان ہو رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں