ایف بی آر کی ادویہ سازکمپنیوں کے قرض کاسود ادا کرنیکی پیشکش

فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ایک منفرد اقدام کرتے ہوئے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو اس قرض کی لاگت(سود) لینے کی پیش کش کی ہے جو انھیں ٹیکس مشینری کی جانب سے ان کے جینوئن ریفنڈز کی کلیئرنس میں تاخیر کی وجہ سے لینا پڑا ہو۔

ایف بی آر کا یہ فیصلہ اس اقرار کے مترادف ہے کہ منی بجٹ میں خام مال پر 17فیصد سیلز ٹیکس کے نفاذ اور ان کے ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے ادویہ ساز کمپنیوں کے کاروبار کرنے کی لاگت بڑھ گئی ہے۔

ایف بی آر پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے درمیان خط و کتابت کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایف بی آر اور ایسوسی ایشن  جی ایس ٹی ریجیم میں  تبدیلیوں کے باعث  کاروبار کرنے کی لاگت میں ہونے والے اضافے کے تعین کے لیے  مشترکہ طور پر ایک مکینزم وضع کریں گے۔

پی پی ایم اے کے چیئرمین قاضی منصور دلاور  کے مطابق کمپنیاں اپنے روزمرہ معاملات چلانے کے لیے جو قرضہ لیں گی اس پر سود  ادا کرنے کا آئیڈیا چیئرمین ایف بی آر نے پیش کیا تھا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ  تجویز قابل عمل نہیں تھی۔ بجٹ میں حکومت نے ایکٹیو فارماسیوٹیکل انگریڈیئنٹ ( API ) پر 17 فیصد  سیلز ٹیکس عائد کیا تھا  تاہم یہ  ٹیکس 72گھنٹوں میں ریفنڈ کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن ایف بی آر کو اس قرض پر سود ادا کرنے کی قانوناً اجازت نہیں ہے جو کمپنیاں ریفنڈز کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے اپنے روزمرہ امور چلانے کے لیے حاصل کرتی ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایف بی آر نے جو اکٹھا کرنے کا دعویٰ کیا اس میں  ٹیکس دہندگان کی رقم بھی شامل تھی جو زیادہ ٹیکس کلیکشن دکھانے کے لیے استعمال کی گئی۔ ایف بی آر نے اب ایک بار پھر  ریفنڈز کی ادائیگیوں میں تاخیر شروع کردی ہے۔

وسطی اور جنوبی ایشیا کے لیے امریکا کے تجارتی نمائندے کرسٹوفر ولسن نے دو ہفتے قبل کہا تھا کہ  ایف بی آر کی جانب سے ریفنڈز کی عدم ادائیگی کی امریکی کمپنیوں نے شکایت کی ہے۔

قاضی دلاور کا کہنا تھا کہ ریفنڈز کی مد میں  ایف بی آر پر فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے 16جنوری تا 15فروری کی مدت کے 2 ارب روپے واجب الادا ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں