منی بجٹ سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر عام آدمی متاثر ہو گا

حالیہ منی بجٹ ملکی معیشت پر کس طرح اثرانداز ہوگا؟

حکومت کا دعویٰ ہے کہ کچھ ٹیکس رعایتیں جو ختم کی گئی ہیں ان سے صرف لگژری اشیا کے صارفین متاثر ہوں گے جب کہ اس سے معیشت کو دستاویزی بنانے میں مدد ملے گی۔

دوسری جانب ناقدین کا خیال ہے کہ منی بجٹ سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا اور  عام آدمی  کے لیے مشکلات اور بڑھ جائیں گی۔  وزیرخزانہ کے مطابق آئی ایم ایف 700ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاہم 343 ارب  کی ٹیکس چھوٹ ختم کی گئی ہے اور اس میں سے بھی 272 ارب روپے کا سیلز ٹیکس  ریفنڈ کردیا جائے گا۔

اس طرح عام آدمی پر صرف 70 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا اور  یہ بھی زیادہ لگژری اشیاء کے صارفین پر ہوگا۔ ٹیکس میں ختم کی گئی  رعایتوں کا تعلق بنیادی طور پر  بالواسطہ ( ان ڈائریکٹ ) ٹیکسوں سے ہے۔ پچھلے 2 سال میں مجموعی ٹیکس حجم میں بالواسطہ ٹیکسوں کے حجم میں 7فیصد اضافہ ہوا ہے۔

بالواسطہ ٹیکس میں اضافے سے عام آدمی متاثر ہوتا  ہے کیوں کہ ان کی آمدن کا بڑا حصہ  اس ٹیکس کی زد میں آجاتا ہے۔وزیرخزانہ کے یہ دعویٰ بھی درست نہیں کہ منی بجٹ میں کیے گئے اقدامات سے عام آدمی پر برائے نام اثر پڑے گا۔

اسپتالوں کو گڈز کی سپلائی،  دواؤں کے خام مال پر ٹیکس، آیوڈین ملے نمک اور  بچوں کے دودھ پر ٹیکس لگنے یہ چیزیں مہنگی ہوں گی اور اس کا سب سے زیادہ بوجھ غریب آدمی پر پڑے گا۔ بیجوں پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے سے کسان متاثر ہوں گے۔ اس  طرح منی بجٹ میں کیے گئے اقدامات  سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر عام آدمی ہی سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں