ملکی معیشت کی شرح نمو 2 فیصد رہنے کی توقع

   مالی سال 2020-21ء میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو اسٹیٹ بینک کے تخمینوں سے کم  2 فیصد رہنے کی توقع ہے۔

اسٹیٹ بینک معاشی شرح نمو 3فیصد رہنے کا تخمینہ ظاہر کیا تھا، آئندہ ہفتے شرح نمو کو اس وقت جھٹکا لگنے کی توقع ہے جب اسٹیٹ بینک  بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر میں مارچ کے مقابلے میں اپریل کے مہینے میں کمی رپورٹ کرے گا۔

صف اول کے پانچ ملکی بینکوں سے میں سے ایک میں  ترسیلاتِ زر کے شعبے کے سربراہ نے ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رواں ماہ ( مئی میں)  تارکین وطن کی ترسیلاتِ زر میں مزید گراوٹ کی توقع ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپریل میں  ترسیلاتِ زر مارچ کے مقابلے میں 100 سے 200 ملین کی کمی سے 2.5  تا 2.6 ارب ڈالر رہی ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اپریل کے آغاز میں ترسیلاتِ زر کا حجم اچھا تھا  مگر پھر مہینے کے آخری ایام میں نامعلوم وجوہ کی بنا پر ترسیلات کم ہوتی چلی گئیں۔بینک کا عملہ بھی اپریل کے اختتام پر ترسیلاتِ زر میں کمی پر حیران تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ترسیلاتِ زر کے حتمی اعدادوشمار آئندہ ہفتے اسٹیٹ بینک جاری کرے گالیکن یقینی طور پر یہ اعدادوشمار مارچ سے کم ہوں گے۔

بینکار کے مطابق مئی کے مہینے میں  ترسیلاتِ زر میں مزید کمی آئی ہے اور گراوٹ کا یہ سلسلہ مہینے کے باقی ایام میں بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔

واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک کے مطابق  رواں مالی سال کے ابتدائی 9ماہ ( مارچ تا جولائی) کے دوران گذشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میں ترسیلاتِ زر میں 26 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ 9ماہ کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 21.5  ارب  ڈالر وطن بھیجے تھے۔ ترسیلاتِ زر ہی  ملکی معیشت کا واحد مثبت پہلو ہیں۔

ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ  اگر ترسیلاتِ زر میں کمی آگئی تو پھر کیا ہوگا؟  زرعی معیشت،  کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، تجارتی خسارہ، بیرونی قرضے اور واجبات ، بیرونی سرمایہ اور فی کس آمدن سمیت تمام معاشی اشاریے زوال کا شکار ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں