وائٹ ہاؤس پر نادیدہ ’پراسرار توانائی‘ کے حملوں کا انکشاف

پچھلے سال، یعنی نومبر 2020 میں وائٹ ہاؤس پر نہ دکھائی دینے والی پراسرار توانائی کے کم از کم دو حملے ہوچکے ہیں جن کی تفتیش میں اہم امریکی ادارے اب تک سر مار رہے ہیں لیکن انہیں کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔

ان عجیب و غریب اور پراسرار حملوں میں کسی نامعلوم طریقے سے مختلف افراد کو الگ الگ نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ انہیں معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ وہ کسی حملے کا شکار ہوگئے ہیں۔

حملے کا شکار ہونے والے فرد کو اچانک کسی خاص سمت سے تالیاں بجنے کی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں جن کا دورانیہ 30 سیکنڈ سے 30 منٹ تک ہوسکتا ہے۔ آواز کچھ ایسی ہوتی ہے جیسے کسی کو انعام ملنے پر تالیاں بجائی جا رہی ہوں۔

دیگر علامات میں دھڑکتے والے انداز سے سر میں درد ہونا اور متلی جیسی کیفیت بھی شامل ہیں۔

اگر اس پراسرار حملے کا شکار ہونے والے فرد کے قریب دوسرے لوگ بھی موجود ہوں تو انہیں ایسی آوازیں بالکل بھی نہیں سنائی دیتیں۔

ان ظاہری علامات کو ’’ہوانا سنڈروم‘‘ کہا جاتا ہے جن کی بنیاد پر بعد میں ایسے کسی ممکنہ حملے کا اندازہ لگایا جاتا ہے لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

ہوانا سنڈروم کے اوّلین واقعات 2016 کے دوران کیوبا میں تعینات امریکا اور کینیڈا کے سفارتی عملے کے ساتھ پیش آئے۔ 2018 میں ایسے ہی واقعات چین میں خفیہ مشن پر جانے والے، امریکی سی آئی اے کے اہل کاروں کے ساتھ پیش آئے۔

یہ حملے کس طرح کیے جاتے ہیں؟ ان حملوں کے پیچھے کون ہے؟ اس بارے میں فی الحال ہم کچھ نہیں جانتے۔

البتہ اس بارے میں کئی مفروضے ضرور موجود ہیں جن میں ’’براہِ راست توانائی‘‘ (ڈائریکٹ انرجی) کو اصل ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔

واضح رہے کہ براہِ راست توانائی سے مراد وہ توانائی ہے جو خاص اسی مقام تک پہنچے کہ جہاں تک اسے پہنچانا ہو۔

اب تک لگائے گئے اندازوں کے مطابق، اس کام کےلیے مائیکروویوز ہی موزوں ترین ہیں کیونکہ عام روشنی کی طرح انہیں کسی نقطے پر آسانی سے مرکوز (فوکس) کیا جاسکتا ہے، جبکہ یہ اپنے راستے میں آنے والی بیشتر رکاوٹوں سے آرپار گزر جاتی ہیں۔

البتہ مائیکروویوز والی بات بھی اب تک صرف ایک مفروضہ ہے۔

امریکی میڈیا کے مطابق، وائٹ ہاؤس پر ’’براہِ راست توانائی‘‘ کا تازہ ترین حملہ ڈونلڈ ٹرمپ کے آخری دنوں میں، امریکی صدارتی دفتر کے قریب ایک لان پر کیا گیا جہاں نیشنل سیکیورٹی کونسل کا ایک اہلکار اس سے متاثر ہوا۔

امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے تازہ ترین قیاسات کے مطابق ’’ہوانا سنڈروم‘‘ کی ممکنہ وجہ بننے والی مائیکروویو ٹیکنالوجی پر آج سے 50 سال پہلے سابق سوویت یونین میں اچھا خاصا کام کیا گیا تھا اور اس سے کچھ خفیہ ہتھیار بھی بنائے گئے تھے۔

ہوسکتا ہے کہ ماضی میں کسی ملک، تنظیم یا فرد نے یہ ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہو اور اسے مزید بہتر بنا لیا ہو۔ لیکن، ایک بار پھر، یہ بات بھی فی الحال صرف مفروضہ ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں