گاڑی خریدنے پر 42 فیصد سرکاری خزانے میں جاتا ہے، تجزیہ کار

شہباز رانا نے کہا کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں جوڈیبیٹ ہوئی وہ نتیجہ خیز تو نہیں تھی، بہت سارے سوالوں کے جواب وہاں نہیں ملے لیکن پھر بھی وہاں کچھ تصورات واضح ہوئے اور بہت سی باتوں کاتعین کیاگیا۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام’’ دی ریویو‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے شہباز رانا نے کہا گاڑی کی قیمت  کے تعین میں ڈالر کا اہم رول ہے، یہ صرف ایک فیکٹر ہے دیگر بھی کئی فیکٹرز ہیں۔ ہمیں اس لیے گاڑی کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ پاکستان میں پبلک ٹرنسپورٹ کی صورتحال بہت اچھی نہیں ہے۔ جب آپ گاڑی خریدتے ہیں تو تقریباً 42 فیصدسرکارکے خزانے میں چلاجاتا ہے۔  پچھلے چند سالوں میں گاڑیوں کی قیمت میں 45 فیصد سے79 فیصد اضافہ ہواہے۔

کامران یوسف نے کہاکہ بھارت میںپاکستان کی نسبت گاڑیاں بہت سستی ہیں پاکستان میں 10 لاکھ کی رینج میںکوئی گاڑی نہیںملے گی جبکہ بھارت میں دس لاکھ قیمت کی دس کے قریب گاڑیاں دستیاب ہیں۔ جوگاڑی یہاں10 لاکھ کی ہے وہی گاڑی آپ کو بھارت میں 6 لاکھ روپے میں مل جاتی ہے۔

پاک وہیلزکے کو فاؤنڈر سنیل منج نے کہاکہ پاکستان میں گاڑی مہنگی ہے۔  پاکستانی گاڑیاں ویلیو ٹو منی نہیںہیں ۔ بہت سے فیچرجن کے بغیردنیا میںگاڑیاںنہیں بنتیں انھیں پاکستان میںلگژری کے نام پر دیا جاتا ہے اورمہنگا دیاجاتاہے۔

ممبر قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے فنانس کے ممبر علی پرویزملک نے کہاکہ میں خود صنعتکار ہوں اور جوحکومت کی میڈ ان پاکستان پالیسی ہے میںاس کی حمایت کرتاہوں لیکن اسکے ساتھ بنیادی چیزیہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انڈسٹری کوپروٹیکٹ کرنے کے ساتھ ساتھ کنزیومر ویلفیئرکوبھی پروٹیکٹ کرناہے۔

ڈائریکٹر آٹوپالیسی انجیئرنگ بورڈمنسٹری آف انڈسٹریز انجنیئر عاصم ایاز نے کہا کہ کمپیٹیشن اس لیے محدودہے کہ کمپنیاںٹیک آف کررہی ہیں، اس وقت سات کمپنیاں ہیں جنہوں نے نئی پالیسی کے تحت لائسنس لے لیا ہے۔ حکومت نہ توقیمت کوکنٹرول کررہی ہوتی ہے اور نہ فیچرزکوکنٹرول کر رہی ہوتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں