مصری نوجوان بچھوؤں کا زہر بیچ کرکروڑ پتی بن گیا

مصری نوجوان نے اپنی ملازمت کو خیرباد کہہ کر بچھوؤں کے زہر نکالنے کا کام شروع کردیا ہے جس سے انہیں کروڑوں کی آمدنی ہورہی ہے۔

مصری نوجوان نے آثارِقدیمہ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی لیکن اس سال کورونا وبا کے تناظر میں مصری سیاحوں کی آمدورفت بہت کم ہوچکی ہے۔ دوسری جانب وہ آثارِقدیمہ کی ملازمت کی لگی بندھی تنخواہ سے مطمئین نہ تھے اور اسے خیرباد کہدیا۔ اس کے بعد وہ ملک کے ویرانوں، ریگستانوں اور ساحلی علاقوں میں نکل گئے جہاں سے وہ موزوں بچھوؤں کو پکڑ کر انہیں جمع کرتے ہیں۔

اس وقت محمد حامدی کی عمر صرف 25 سال ہے اور وہ ’قاہرہ وینم کمپنی‘ کے مالک ہیں ۔ ان کی تجربہ گاہوں میں کئی اقسام کے چھوٹے بڑے بچھو اور سانپ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ صرف تجربہ گاہوں میں ہی بچھوؤں کی تعداد 80 ہزار ہے جنہیں مصر کے ویرانوں اور کھیتوں سے بھی جمع کیا گیا ہے۔

محمد حامدی کے مطابق عموماً رات کو ایک جگہ سے بہت سے بچھو مل جاتے ہیں اور اندھیرے میں جب ان پر بالائے بنفشی (الٹراوائلٹ) شعاع ڈالی جائے تو وہ خاص چمکدار رنگ خارج کرتے ہیں۔ تجربہ گاہ میں لاکر انہیں ہلکا کرنٹ دیا جاتا ہے۔ اس کرنٹ کے ردِ عمل میں وہ سرگرم ہوکر اپنا زہر خارج کرتے ہیں جنہیں جمع کرلیا جاتا ہے۔

بین الاقوامی مارکیٹ میں ایک گرام زہر کی قیمت دس ہزار ڈالر تک ہے جس کی گاہک جرمنی، یورپ اور امریکہ میں ادویہ ساز کمپنیاں ہیں۔ صرف ایک گرام زہر کو اگر قلمی (کرسٹلائن) کیفیت میں برآمد کیا جائے تو اس سے اینٹی وینم یا تریاق کی 20 سے 50 ہزار خوراکیں تیار کی جاسکتی ہیں۔

لیکن یہ زہر صرف اینٹی وینم دوا بنانے کا ہی کام نہیں کرتا بلکہ ان میں موجود پروٹین کی لمبی زنجیریں، کینسر، بلڈ پریشر اور دیگر امراض کی ادویہ بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ صرف بلوچستان میں پائے جانے والے لیف نوز وائپر سانپ کا زہر ہی دنیا بھر میں زبردست مانگ رکھتا ہے ۔ اس کے زہر کی کچھ مقدار کئی ہزار ڈالر تک میں فروخت ہوتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں