43ممالک، 50ہزار کلومیٹر سفر کرنے والے پاکستانی سائیکل سوار ’’کامران آن بائیک‘‘

ہیلی فیکس(نمائندہ جنگ) دنیا بھر میں سیاحت کے شوقین افراد کی تعداد کروڑوں میں ہے جو اپنے خوابوں کو حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، ایسے ہی ایک پاکستانی شہری ہیں جنہوں نے اپنا جنون پورا کرنے کیلئے دنیا کے 43 ممالک میں 50 ہزار کلو میٹر کا سفر سائیکل پر کر کے سب کو حیران کر ڈالا ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر لیہ سے تعلق رکھنے والے کامران جنہیں کامران ’’آن بائیک‘‘ بھی کہا جاتا ہے، نے 9 برس میں پچاس ہزار کلو میٹر کا سفر طے کیا اور مزیدسفر کے خواہشمند ہیں تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان میں رکے ہوئے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارےسے گفتگو کرتےہوئے کامران کا کہنا تھا کہ میں فارغ وقت میں اپنی یادگار لمحات پر مبنی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرتا ہوں، بلاگ لکھتا ہوں، میرا تعلق غریب گھرانے سے تھا، والد صاحب کی پرانے ٹائروں کی دکان تھی، جہاں وہ پنکچر لگاتے تھے۔آبائی شہر سے انٹر کیا، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے کمپیوٹر سائنس میں بی ایس سی اور پھر ایم اسی سی کیا، مزید تعلیم کیلئے جرمنی گیا جہاں سے میں نے ماسٹرز اور پھر پی ایچ ڈی کی۔اپنے بارے میں انہوں نے مزید بتایا کہ پہلی بار سفر 12 سال کی عمر میں کیا، یہ سفر سائیکل پر لیہ سے 26 کلو میٹر دور ایک چھوٹی سی جگہ چوک اعظم کا تھا، جہاں پر 12 ربیع الاوّل کا پروگرام ہو رہا تھا۔ اس سفر کے دوران کافی محظوظ ہوا، نہروں پر رکے، پھل توڑ کر کھائے، یہ لمحات میرے لیے عجیب سے تھے۔ پھر ایک مرتبہ گھر والوں سے چھپ کر 150 یا 160 کلو میٹر کا سفر کیا، یہ سفر لیہ سے ملتان کا تھا، ایک مرتبہ لیہ سے لاہور بھی گیا جس کے لیے مجھے 2 دن لگے۔

جرمنی میں تعلیم کے حوالے سے کامران کا کہنا تھا کہ بہت مشکل سے جرمنی میں تعلیم حاصل کی، جب پہلی بار جہاز پر بیٹھ کر ترکی کے اوپر سے گزر رہا تھا تو کھڑکی سے نیچے دیکھتے ہوئے مجھے ہر چیز دریا، ندیاں، سڑکیں ترچھی لائنوں کی طرح نظر آ رہی تھیں۔برلن میں تعلیم مکمل کی اور نوکری کر کے اپنا قرض اُتارا اور پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ایک بار میں اپنے گھر والوں کو جنون سے متعلق بتاتے ہوئے کہا کہ سائیکل پر جرمنی سے پاکستان آ رہا ہوں جس پر والدین سخت غصہ ہوئے۔تاہم والدہ کو بلیک میل کیا جس پر وہ مان گئیں۔ جرمنی سے پاکستان کا سفر شروع کیا تو پورا یورپ تو بس دیکھتے ہی دیکھتے گزر گیا۔

ایک دن میں سو کلو میٹر اور کبھی کبھی ایک روز میں 250 کلو میٹر کا سفر بھی طے ہو جاتا تھا تاہم استنبول پہنچا تو پتہ چلا والدہ کو ہارٹ اٹیک ہوا اور ہسپتال داخل ہیں جہاں سے میں فوراً جہاز پر بیٹھ کر پاکستان پہنچا۔ کچھ عرصے بعد والدہ کا انتقال ہو گیا۔والدہ کے انتقال کے بعد ایک مرتبہ پھر جرمنی واپس چلا گیا۔ جہاں پر نوکری کے دوران خواب پورا کرنے کے لیے چھ ماہ کی چھٹیاں مانگیں تاہم کمپنی نے تین ماہ کی چھٹیاں دیں جس کے بعد فوراً فیصلہ کیا اور نوکری چھوڑ دی۔

جرمنی میں اپنا قیمتی سامان بیچ دیا اور خواب پورے کرنے کے لیے نکل پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے دوبارہ سفر شروع کیا تو ایران سے براہ راست جانے کی بجائے سینٹرل ایشیا کے ممالک سے ہو کر پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔وسطی ایشیا سے ہوتا ہوا خنجراب کے ذریعے پاکستان آیا، سفر کچھ اس طرح تھا کہ ایران سے ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، کرغستان اور پھر چین اور وہاں سے خنجراب پاس کے ذریعے پاکستان پہنچا۔جولائی 2015ء کو پاکستان میں داخل ہوا۔ خواب کو پورا کرنے کے لیے 13 سال انتظار کرنا پڑا۔ جب لوگ مجھ سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ کیا میں ایک کمپیوٹر انجینئر ہوں، سیاح ہوں، سائیکلسٹ یا بلاگر تو میرا جواب یہ ہے کہ ’ کی جانا میں کون؟‘ میں جس موڈ میں بیٹھا ہوتا ہوں وہی بن جاتا ہوں۔

جب کمپیوٹر کی فیلڈ کے لوگوں سے بات کر رہا ہوتا ہوں تو کمپیوٹر انجینئر، جب فوٹوگرافرز کے درمیان ہوں تو فوٹو گرافر اور سائیکلسٹس کے درمیان ہوں تو سائیکلسٹ، انہوں نے کہا کہ شروع شروع میں تو ساری بچت ہی اس پر لگاتا تھا۔ بارہ، تیرہ سال جرمنی میں رہ کر جو بچت کی تھی اس سے پہلا سفر تو ہو گیا اور دوسرا بھی شروع ہو گیا لیکن بعد میں جب جنوبی امریکہ کا سفر کیا تو سارے پیسے ختم ہو چکے تھے۔

یہ سفر ارجنٹینا سے شروع کیا اور خرچے پورے کرنے کے لیے مجھے اس دوران بہت ساری ’اوڈ جابز‘ بھی کرنا پڑیں۔ کبھی کبھار جریدے تصاویر خرید لیتے ہیں، کبھی آن لائن ڈالی ہوئی ٹی شرٹس بک جاتی ہیں، کبھی کبھار ٹریول یا بائسیکل میگزینز کو آرٹیکل لکھ دیتا ہوں۔

ان کا کہنا تھاکہ فری کھانے اور فری رہائش کے لیے سڑکوں پر مزدوری کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میری زندگی کے سب سے حسین ترین لمحات جنوبی امریکا میں گزرے، جہاں پر کئی بار لوگوں نے اپنے گھروں میں رکھا اور ایک مرتبہ ایک بزرگ نے خود جیب سے پیسے بھی دیئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں