نگار جوہر پہلی خاتون لیفٹیننٹ جنرل

پاکستانی خواتین اپنی محنت شاقہ سے زندگی کے ہر شعبے میں لیاقت، مہارت اور خدمت کے جو اعلیٰ معیار قائم کر رہی ہیں اُس کی ایک درخشندہ مثال آرمی میڈیکل کور کی میجر جنرل نگار جوہر ہیں جنہوں نے اُس وقت تاریخ رقم کی جب اُنہیں پاک فوج کی پہلی خاتون لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر پہلی سرجن جنرل تعینات کر دیا گیا۔ اُن کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی کے علاقے پنج پائی سے ہے۔ میجر جنرل کے عہدے پر پہنچنے والی بھی وہ تیسری خاتون ڈاکٹر تھیں۔ کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز سے امتحان پاس کرنے کے بعد دسمبر 1985میں اُنہیں بطور کیپٹن کمیشن ملا۔ اُن کے والد فوج میں کرنل اور چچا میجر تھے۔ انہی کو دیکھ کر اُنہیں فوج میں آنے کا شوق پیدا ہوا۔ اپنی نئی اور تاریخ ساز تقرری سے قبل وہ ملٹری اسپتال راولپنڈی میں کمانڈنٹ کے عہدے پر فائز تھیں۔

اُنکی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے اُنہیں فوجی اعزاز تمغہ امتیاز سے نوازا۔ اُنکی شہرت ایک انتھک افسر کی ہے۔ اُن کے اسٹاف کے مطابق وہ انتہائی تندہی سے ڈیوٹی بجا لاتی ہیں۔ کوئی کام ادھورا نہیں چھوڑتیں اور اکیلے چار مردوں کے برابر کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ آرمی میڈیکل کور کے اعلیٰ ترین عہدے پر اُنکی ترقی جہاں پیشہ ورانہ اہلیت کا اعتراف ہے وہاں اِس بات کا بھی ثبوت ہے کہ پاکستانی خواتین کسی بھی شعبے میں موقع ملنے پر خدمت کے ریکارڈ قائم کر سکتی ہیں۔ فلائنگ آفیسر مریم مختار پاک فضائیہ کی پہلی فائٹر پائلٹ ہیں۔

صائم بیگ مائونٹ ایورسٹ سر کرنے والی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے 21سال کی عمر میں یہ کارنامہ سر انجام دیا۔ اِسی طرح کئی اور خواتین ہیں جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں غیرمعمولی کارکردگی پر اقوامِ متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں سے ایوارڈ حاصل کیے۔ خواتین کیلئے لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر کی جدوجہد اور اُنکا کردار مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں