خواتین کے حقوق کے لیے جتنا کام پیپلز پارٹی نے کیا کسی اور جماعت نے نہیں کیا..سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا سے گفتگو

پر وقار، سادہ، ذہین اور پر عزم شہلا رضا کا سیاسی سفر ان کی لگن اور مسلسل جدوجہد سے عبارت ہے۔ اس راہ میں بے شمار مشکل مقام آئے مگر انہوں نے نہ راستہ تبدیل کیا اور نہ ہی مقصد، بلند حوصلے اور سچی لگن سے ہر مشکل کا سامنا کیا اور سر خرو ہوئیں۔ان سے گفتگو کا آغاز ان کے بتیس سالہ سیاسی سفر کے حوالے سے ہوا۔

س: شہلا آج اس مقا م پر پہنچ کر آپ خود کو مطمئن محسوس کر تی ہیں کہ جو کرنا چاہتی تھی وہ کر لیاہے؟
ج: خدا کا بہت چکر ہے اس نے بہت عزت دی ہے میر ا ایمان ہے کہ میں یہاں اس لیے ہوں کہ مجھے لوگوں کے کام آنا ہے۔ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہیں اورمیں سمجھتی ہوں کہ ابھی میں اتنے کام نہیں کرپاتی جتنا میں کرنا چاہتی ہوں۔ بحیثیت ممبر اسمبلی قانون سازی سے مطمئن ہوں مگر عملدرآمد سے مطمئن نہیں ہوں۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ لو گ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے کام ہر صورت میں ہوجائیں اور اس کے لئے قانون،قاعدے،اصول اور میرٹ کچھ نہ دیکھا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح نہیں کیا جا سکتا اور اگر کام نہ ہو پائے تو ناراضگیاں ہو جاتی ہیں پھر بھی میں کوشش کرتی ہوں کہ جائز اور صحیح کام فوری طور پر ہو جائیں،سب سے بڑا مسئلہ ملازمتوں کا ہے۔میں یہ کہتی ہوں کہ اگر آپ ضرورت مند ہیں تو فارغ بیٹھنے سے بہتر ہے جو کام ملے وہ کرلیں اس سے آپ کی معلومات میں بھی اضافہ ہو تا ہے میں نے فزیالوجی میں ماسٹرز کیا ہے مجھے جاب کی ضرورت تھی تو میں نے سرکاری ملازمت کا انتظار کرنے کے بجائے ایک اسکول میں سالوں سائنس پڑھائی۔
س: تعلیمی دور میں آپ ڈاکٹر بنا چاہتی تھیں؟
ج: ہاں! بھئی میں پڑھائی میں شروع سے تیز تھی۔پانچویں اور آٹھویں جماعت میں اسکالر شپ حاصل کی تھی۔انٹر میں بھی بہترین نمبر آئے تھے مگر اماں نواب شاہ بھیجنے کو تیار نہیں تھیں جبکہ میرا ڈومیسائل حیدرآباد کا تھا تو داخلہ وہیں مل رہا تھا۔ہم زیادہ ضدی بچے نہیں تھے لہذا مان گئے اور کراچی یونیوڑسٹی میں فزیالوجی ڈپارٹمنت میں داخلہ لے لیا مگر سچ بات یہ ہے کہ چونکہ فرسٹ ڈویژن کے باوجود میڈیکل میں نہیں جاسکی تو اس کے بعد پڑھائی میں دل نہیں لگا۔مجبوری یہ تھی کہ سب گھر والے پڑھے لکھے تھے اس واسطے کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا۔ یونیورسٹی میں سیاست میں دلچسپی لینا شروع کردی اس وقت حالات بہت سنگین تھے۔ویسے ڈاکٹر بن کر لوگوں کی جتنی خدمت کرسکتی تھی اب میں اس سے زیادہ لوگوں کے کام آتی ہوں۔
س: بچپن کی کچھ ایسی یادیں جو ہم سے آپ شئیر کرنا چاہیں۔؟
ج: بچپن میں میں بہت شریر تھی اب بھی ہوں اپنے بہن بھایؤں میں میں نے اپنی امی سے سب سے زیادہ پٹائی اور ڈانٹ کھائی ہے میرا مسئلہ یہ تھا کہ گھر میں کوئی مہمان اگربن بن کر بناؤٹی انداز میں بات کرتا میں اس کی نقل شروع کر دیتی اور کبھی کبھی تو اس کے سامنے ہی شروع کر دیتی۔گڑیوں سے کھیلتی تھی اور ان کے کپڑے خود سیتی تھی۔ باقی کھیلوں میں چوٹیں بہت لگتی تھیں۔ جب گھر میں آپ کا چوتھا نمبر ہوتو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ گھر میں آپ کو پانچ مارنے والے موجود ہیں۔
س: سیاست میں کیسے آیئں؟
ج: ہمارے گھر کا ماحول ادبی تھا نہ صرف کتابیں بلکہ اخبار کا مطالعہ بھی معمول کا حصہ تھا۔ملک کے جو حالات تھے ان سے آگاہی مجھے عملی طور پر پیپلز اسٹوڈنت فیڈریشن میں لے گئی۔ کچھ وقت بعد مجھے دہرے قتل اور اسلحہ کی سپلائی کے الزامات لگا کر جیل بھیج دیا گیا تھا اس وقت میرے عمر ۰۲ یا ۱۲ سال تھی۔ ماسٹرز کا فائنل امتحان میں نے جیل سے دیا اور دوسری ڈویژن آئی، مجھے ایک مہینہ سی آئی اے اور ساڑھے چار مہینے جیل میں رکھا گیا۔وہاں انداز ہ ہوا کہ برداشت کس چیز کا نام ہے جب میں جیل میں تھی تب آصف صاحب اور بے نظیر بھٹو مجھ سے ملنے آئے تھے۔ والدین بھی یہ کہتے تھے کہ بیٹا اب یہ سب بہت ہو گیا مگر میں خود کو ہمت دلاتی رہتی تھی کہ مجھے آگے کام کرنا ہے۔
س: جیل کے شب و روز اور احساسات کے بارے میں کچھ بتائیں گی؟
ج: جیل میری زندگی کی ٹریننگ تھی وہاں مجھے کسی الگ سیل کے بجائے مختلف جرائم میں ملوث خواتین کے ساتھ ہی رکھا گیا تھا اور وہاں میں نے بہت کچھ سیکھا۔ میں نے یہ سمجھا کہ مشکل کی اس گھڑی میں ساتھ رہنے والے ہی مجھ سے مخلص ہیں۔ ان دنوں ہر وہ شخص جس نے میرے والدین سے منفی بات کی انہیں غلط کہا مجھے آج بھی یاد ہے، آج جب میں ایک عہدے پر ہوں اور ان کا کوئی کام ہوتا تو میں کر دیتی ہوں۔مجھ پر لگائے گئے الزامات ثابت نہ ہوسکے اور مجھے با عزت بری کردیا گیا۔ جن لوگوں نے ہمارے ساتھ یہ سب کیا تھا آج انہیں ایرکنڈیشنڈ کمروں میں بیان دینے کے لیے بلایا جاتا ہے تو وہ وہ بھی نہیں سہہ پاتے۔ میں نے 1985میں پی ایس ایف جوائن کی تھی اور اس دن سے آج تک پارٹی میں ہوں۔
س: اگر میں آپ سے پوچھوں کہ آپ نے پیپلز پارٹی کا ہی انتخاب کیوں کیا؟
ج: کیونکہ پاکستان میں پی پی پی ہی وہ واحد جماعت ہے جو تمام صوبوں میں موجودہے دوسری بات ہماری پارٹی کی بنیاد صوبے،مذہب یا زبان پر نہیں ہیپیپلز پارٹی نے ہمیشہ ملک جوڑ نے کی بات کی ہے۔ملک میں جتنے بڑے پروجیکٹ ہیں ان میں سے زیادہ تر پی پی کے ا دوار میں بنے۔ملک کو آئین پی پی نے دیا اور بحال بھی کرایا ہے۔ جہاں تک خواتین کی بات ہے ان کے حقوق کے لیے جتنا کام پیپلز پارٹی نے کیا کسی نے نہیں کیا۔سالہا سال سے پارٹی جمہوریت کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔بھٹو صاحب نے خواتین کو مرد و ں کے برابر حقوق دینے کی کوشش کی۔سرکاری مالازمتوں میں دس فیصد کوٹہ مختص کیا۔ سیاست میں خواتین کو آگئے لانے کے لیے ۵۱ سال تک سیٹس مخصوص کرنے کی بات کی۔ بیگم اشرف عباسی کو اسی زمانے میں ڈپٹی اسپیکر بنایا گیا۔ ہمارے بعد دوسری جماعتوں میں بھی خواتین کو آگے لانا شروع کیا گیا۔پیپلز پارٹی کی جدوجہد سے فرسٹ وومین بینک متعارف ہوا جہاں خواتین کوقرضے دیے جاتے ہیں اور یہ پبلک سیکٹر میں شامل ہے۔یوں خواتین کے مسائل مردوں سے مختلف نہیں ہوتے ہیں ان مسائل کے ساتھ ساتھ خواتین کے لئے جو دیگر دشواریاں ہیں ان کے سدباب کی کوشش کی گئی ہیں اور کی جاتی رہیں گی۔خواتین کے حوالے سے میرا ایمان ہے کہ سارے قوانین عورت کے مدد گار ہیں کیونکہ اگر اس سے مرد یا بچے کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے تو وہ بھی عورت کا ہی فائدہ ہے۔
س: خواتین کے حق میں قانون سازی کر نا کافی ہے۔۔۔؟
ج: آپ درست کہہ رہی ہیں ہر روز رتکلیف دہ خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ پھر بھی آپ کو سندھ میں اس طرح کے مسائل کم ملیں گے۔ پنجاب اور کے پی کے میں یہ بہت زیادہ ہیں۔سندھ میں اس طرح کی پنچایتں اور جر گے نہیں ہورہے ہیں۔میں جرگہ سسٹم کی حامی نہیں ہو ں مگر یہاں ضرورت پڑنے پر جو جرگے ہوتے ہیں وہ اس سے الگ ہوتے ہیں۔دیکھیں اسمبلیوں کا کام ہے موثر قوانین بنا نا ہے اور قانون کا بن جانا بہت اہم ہے اس کے بعد انتظامیہ اور معاشرے کے دوسرے شعبوں کا کام شروع ہوتا ہے۔ سب سے بڑی ضرورت آگہی پیدا کرنے کی ہے اور اس میں این جی اوز کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ہم خواتین کے معاشی استحکام کے لئے بھی کوشا ں ہیں ۔دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے بہت کام کیا جا ریا ہے انہیں لائف اسٹاک، کچن گارڈننگ اور اس طرح کے مختلف کاموں کی تربیت دی جارہی ہے۔لڑکیوں کو اسکول بھیجنے کے لیے مختلف تر غیبات دی جارہی ہیں۔ کیونکہ تعلیم سے ہی سب کچھ بدل سکتی ہے۔
س: آپ سالوں سے کام کر رہی اس دوران یقینا ایسے لمحات آئے ہوں گے جن کو فراموش نہیں کیا جاسکتا؟
ج: جی بالکل۔ مجھے پارٹی نے بھی ایوارڈ دیا ہے اسی طرح یونیورسٹی میں اپنے استاد پیرزادہ قاسم سے بھی مجھے شیلڈ ملی انھوں نے دو تین موقعوں پر مجھے ایوارڈ دیا اور رول ماڈل بھی قرار دیا۔ استاد کی تعریف ایک الگ معنی رکھتی ہے۔ بہت ساری دفعہ میری قیادت نے مجھے مختلف جگہوں پر اس یقین سے آگے کیا کہ میں بہتر کام کر سکتی ہوں یہ بھی میرے لئے ایک بڑے اعزاز سے کم نہیں ہے۔تعلیم کے دوران بی بی شہید نے مجھے خصوصی طور پر شاباش دی تھی اور ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ یہ سب اپنی جگہ مگر تعلیم پر بھی پوری توجہ دینا۔سندھ میں جب سپر فلڈ آیا تھا اور سندھ میں کیے گئے سارے ترقیاتی کام بربا د ہوگئے تھے اس وقت میں تمام کیمپس میں کام کر رہی تھی خصوصا وزاق آباد کا سب سے بڑا ریلیف کیمپ میں نے سنبھالا ہوا تھا اس وقت جناب آصف علی زرداری صاحب کاجملہ میں نہیں بھول سکتی کہ اللہ نے تم سے یہ کام کرانا تھا اس لیے تمہیں اس جگہ تک پہنچا یا ہے۔ مجھے پارٹی قیادت سے مختلف مواقعوں پر بہت تعریف اور ہمت ملی ہے۔اور یہ ایک کارکن کی لیے بڑی بات ہے میں آج بھی کرائے کے مکان میں رہتی ہوں۔مشکل تھا مگر جیسے کہ زندگی میں ہر مسلمان کی سب سے بڑی تمنا اللہ کا گھر دیکھنے کی ہوتی ہے میری بھی تھی اور وہ فر یال تالپورصاحبہ نے مجھے اپنے ساتھ عمرے پر لے جاکر پوری کردی۔اپنی ماں کو زیارتوں پر لے جانے کی تمنا تھی وہ بھی پوری ہوگئی۔
جب میں اپنی زندگی کے سب سے مشکل دور سے گرز رہی تھی۔ میرے بچوں کے جانے کے بعد میرے لیے دنیا اندھیر ہوگئی تھی۔تب میری قائد محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے مجھے سہارا دیا ان کے الفاظ مجھے واپس زندگی کی طرف لائے تھے انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ جب ہم پر تکلیفیں اور پریشانیاں آتی ہیں تو کچھ لوگ ان دکھوں سے ہارمان کر بیٹھ جاتے ہیں ٹوٹ جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ دوسروں کو سہارا دینے والے بن جاتے ہیں ۔ اب فیصلہ تم کو کرنا ہے کہ تمہیں دوسروں کا ہاتھ پکڑنے والا بننا ہے یا دکھوں سے ہار مان کر بیٹھ جانا ہے، میں تمھارا ہاتھ پکڑنے آؤں یا تم میرا ساتھ دوگی؟ ؎بس اس کے بعد میں کھڑی ہوگئی۔ان کے الفاظ مجھے یاد ہیں کہ میراغم ایک بیٹی اور ایک بہن کا غم ہے اور تمھارا غم ایک ماں کا غم ہے جو مجھ سے بہت بڑا ہے۔تم میرے سامنے ہوگی تو میں خود کو مضبوط محسوس کروں گی۔
س: فارغ وقت میں کیا کرتی ہیں؟
ج: فارغ وقت ملتا ہی نہیں اور میں خود بھی کوشش کرتی ہوں کہ نہ ملے ورنہ میں رونے لگتی ہوں۔ویسے لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ہر ٹی وی پروگرام پر یا کہیں بھی کسی موضوع پر بولنے سے قبل اس پر پڑھتی ہوں ریسرچ کرتی ہوں۔میرے شوہر غلام قادر فکشن رائیٹر ہیں مجھے بھی لکھنے کا شوق ہے مگر میں بیٹھ نہیں پاتی۔ شروع سے نشانہ بازی کا بہت شوق ہے وومن گارڈ میں پہلا انعام لیا تھا، گھر میں ابا کی ائیرگن میں چنے ڈال کر چھپکلیوں کا شکار کرتے تھے۔ چار سال پہلے نتھیا گلی میں جو پٹھان غبارے اور رائفل وغیرہ لے کر آتے ہیں ان کے سار ے غبارے اڑادیے تھے۔
س: کھانا پکانے کا شوق ہے؟
ج: سب پکاتی ہوں کوکنگ کرتی ہوں ویسے پسند نہیں ہے۔
س: سیاست دان نہ ہوتی تو کیا ہوتی؟
ج: ٹیچر ہوتی۔ میری ملازمت میری فیملی کی ضرورت تھی اور مجھے پسند بھی تھی۔
س: ہمارے قاریئن کے لئے کوئی پیغام۔۔۔؟
ج: صرف اتنا کہنا ہے کہ خود پڑھیں اپنے بچوں کو بھی پڑھایئں۔بچیوں کو اعتماد دیں اورگھر کے مشوروں میں شامل کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں