ایک زمانہ تھا کہ جب گھرکے ہر چھوٹے بڑے فیصلوں میں خواتین کی رائے لینا معیوب سمجھاجاتا تھا اور آج یہ دور ہے کہ بڑی بڑی کمپنیوں کے بڑے فیصلوں میں خواتین نہ صرف شریک ہیں بلکہ ان کے فیصلوں اور مشوروںسے کمپنیاں ترقی کی منازل بھی طے کررہی ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم کی ’ گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2019ء‘ کے مطابق دنیا بھر میں صنفی برابری کا خلا 68فیصد تک پُر ہوچکا ہے، تاہم ابھی بھی اس کو مکمل پُر ہونے میں مزید 108سال لگ سکتے ہیں جبکہ کمپنیوں میں صنفی مساوات کاخلا پُر ہونے میں 202سال انتظا ر کرنا ہوگا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر سیاسی اور سماجی لیڈرشپ کی بات کی جائے تو ابھی دنیا کو طویل سفرطے کرنا ہے۔
رپورٹ میں 149ممالک کا احاطہ کیا گیا، جن میں سے 17ممالک کی سربراہ خواتین ہیں اور اگر وزیروں، مشیروں کا اوسط نکالا جائے تو عالمی سطح پر خواتین وزراء کی تعداد 18فیصد اور پارلیمان میں ان کی موجودگی 24فیصد ہے۔ اسی طرح ان ممالک کے دستیاب اعداد وشمار کے مطابق صرف 34فیصد خواتین منیجرکے عہدہ پر تعینات ہیں۔ کچھ ممالک میں یہ صورتحال اور بھی خراب ہے جیسے کہ مصر، سعودی عرب، یمن اور پاکستان، جہاں خواتین منیجرز کی تعداد7فیصد سے بھی کم ہے۔ ان ممالک کے دستیاب اعداد وشمار میں 29ممالک ایسے ہیں، جہاں دفاتر میں خواتین مردوں سے دگنا وقت صرف کرتی ہیں، لیکن انہیں معاوضہ مردوں سے کم ملتا ہے۔
لیڈر شپ: خواتین کی شمولیت وقت کی ضرورت ہے !
ایک دوسری رپو رٹ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں صرف 22فیصد خواتین مصنوعی ذہانت کے میدان میں پیشہ ورانہ خدمات انجام دے رہی ہیں جبکہ مرد حضرات کی تعداد78فیصد ہے۔ اس شرح سے صنفی خلا 72فیصد بنتا ہے، جو گزشتہ کئی برس سے مستقل رحجان ظاہرکرتا ہے اورمستقبل میں بھی اس شرح میں اضافہ کا امکان موجود نہیں۔
رپورٹ کے مطابق، مصنوعی ذہانت کے میدان میں اقتصادی سطح پر شمولیت اور مستقبل میں ملنے والے مواقع کی وجہ سے صنفی خلا بڑھ سکتا ہےکیونکہ مصنوعی ذہانت میں بہت اعلیٰ پیمانے کے ماہرین کی ضرورت بڑھتی چلے جائے گی۔ دوسرا یہ کہ مصنوعی ذہانت کی مہارت کا مطلب ہے کہ بہت سارے میدانوں میں عمومی طور پر استعمال کی جانے والی اس ٹیکنالوجی میں پیش رفت ہوئی ہے، جس میں خواتین کی محدود شمولیت ہوئی ہے۔
تیسرا یہ کہ مصنوئی ذہانت کے ٹیلنٹ کے دائرے میں، یہاں تک کہ ان صنعتوں اور جغرافیائی خطوں میں جہاں آئی ٹی کی بنیادپر بھی خواتین کی شراکت زیادہ ہے، خواتین کی محدود شراکت کا مطلب یہی ہے کہ اس پیشہ ورانہ میدان میں ہم ان خواتین کی ذہانت سے فائدہ اٹھانے کے مواقع ضائع کررہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کے میدان میں پہلے ہی اصل ذہانتوں کی کمی کا سامنا ہے۔
جہاں کہیں بھی مصنوعی ذہانت، فِن ٹیک، ای کامرس اور ایچ آر کی بات ہو گی، اس کی ٹیم تنوع (Diversity)سے بھرپور ہوگی لیکن وہ کوئی بھی سیکٹر ہو، کتنا ہی ترقی کررہا ہو، وہ باصلاحیت خواتین کے بغیر ادھورا ہے۔ مزید یہ کہ کئی مطالعوں سے پتہ چلاہے کہ کسی بھی ادارے کی ایگزیکٹو ٹیم میں اگر خواتین ہوں تو وہ اس کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
دنیا بھر میں کی گئیں بہت ساری سائنسی تحقیقات یہ ظاہرکرتی ہیں کہ وہ لوگ جو مختلف طبقوں سے تعلق رکھتے اور مختلف طبیعتوں کے مالک ہوتے ہیں وہ زیادہ تخلیقی، محتاط اور محنت کش ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر 2012ءمیں، کریڈٹ سوئس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے2005ء سے لے کر2011ء تک ان 2400کمپنیوں کی کارکردگی پر تحقیق کی، جن میں ایک بھی خاتون بورڈ ممبر نہیں تھی۔ اس تحقیق سے پتہ چلا تھا کہ 6سال کے عرصے میں جس بورڈ میں کم سے کم ایک خاتون ممبر تھیں، اس کمپنی نے 26فیصد بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، بنسبت ان کمپنیوں کے جہاں خواتین موجود نہیں تھیں۔
اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ اگر لیڈرشپ پوزیشن پرزیادہ خواتین موجود ہیں توآپ مختلف اذہان کے فیصلے لے سکتے ہیں۔ خواتین فیصلہ کرنے، مزید خواتین کو ملازمت پر رکھنے اور ان کی تربیت کرنے میں زبردست معاون ثابت ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے خواتین کی صلاحیتوں کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی، جس کی وہ حقدار ہوتی ہیں۔
2016ء میں 91ممالک کی 21 ہزار 980فرمز کا سروے کیاگیا، جس سے پتہ چلا کہ لیڈر شپ پوزیشن پر خواتین کی قلیل تعداد موجود ہے اور یہ بھی بتایا گیا کہ کارپوریٹ لیڈرشپ پوزیشن پر خواتین کی موجودگی سے فرمز کی کارکردگی میں اضافہ اور زائد منافع حاصل کیا جاسکتا تھا۔
اگرچہ یہ اسٹڈی امریکا میں موجود پیٹرسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس نے انجام دی تھی لیکن ادارہ اس مخصوص تعلق کی صحیح نشاندہی نہیں کرپایا، آیا کہ یہ منافع خواتین کے مختلف تخلیقی اذہان، مہارتوں اور بہتر فیصلہ سازی کی وجہ سے ہوتا ہے یا اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں