کورونا وبا؛ لاک ڈاؤن کے باوجود ریشم کے کیڑے پالنے کا کام تیزی سے جاری

کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں کئی کاروبار اور صنعتیں عارضی طور پر بند ہیں وہیں گھروں میں ریشم کے کیڑے پالنے کا کام تیزی سے جاری ہے۔

لاک ڈاؤن نے کاروبارزندگی کومتاثرکیا ہے اورکورونا جیسے موذی مرض سے بچنے کے لیے لوگ نے اپنی سرگرمیاں محدود کرکے خود کو گھروں تک محدود کررکھا ہے۔ اس اقدام سے بہت سے لوگوں کا روزگار بھی متاثرہورہا ہے تاہم دوسری طرف ریشم کے کیڑے پالنے والوں کو لاک ڈاؤن سے کوئی فرق نہیں پڑا ہے اور گھروں میں رہ کر پہلے سے زیادہ ریشم کے کیڑے پال رہے ہیں۔

محکمہ جنگلات کے شعبہ سیری کلچر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمدفاروق بھٹی نے بتایا کہ کوروناوائرس کی وجہ سے پروازوں کی بندش کے باعث ہم چین سے بروقت بیج نہیں منگواسکے تھے۔ 15 مارچ کو ہم نے صرف 150 پیکٹ منگوائے تھے کیونکہ اس وقت کیڑوں کی پرورش کا وقت تیزی سے گزررہا ہے۔ یہ سیزن 15 فروری سے15 اپریل تک ہے۔ اس سیزن میں ہم اپنا مجموعی ہدف پورا نہیں کرسکیں گے البتہ ہم نے 650 پیکٹ تقیسم کئے ہیں، یہ بیج چھانگا مانگا، چیچہ وطنی، مٹھہ ٹوانہ، سرگودھا، ،منڈی بہاوالدین، بہاولپور اورخانیوال کے مختلف علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا اور اس بیج سے اب ریشم کی ٹونٹیاں تیارہونے کے قریب ہیں۔

ریشم کے بیج کے ایک پیکٹ کی قیمت 2 ہزار روپے ہے جس سے 30 ہزار کے قریب انڈے پیدا ہوتے ہیں۔ ریشم کی ٹوٹیاں چھانگا مانگا کی مقامی منڈی میں ہی 750 سے 850 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کی جارہی ہیں۔ ایک پیکٹ سے ایک خاندان کو ایک ماہ میں 30 سے 35 ہزار روپے کمائی ہوتی ہے۔ ریشم کے کیڑے پالنے کے عمل کے دوران جو فضلہ جمع ہوتا ہے اسے فش فیڈ اور فصلوں میں بطورکھاد استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ فضلہ بھی اچھے داموں فروخت ہوجاتا ہے۔

محمد فاروق بھٹی نے مزیدبتایا کہ ہماراپروگرام اس سال ریشم سازی کے شعبے کو ایک صنعت کے طورپرفروغ دینے کا تھا لیکن لاک ڈاؤن اورکوروناوائرس کی وجہ سے یہ کام نہیں ہوسکا اب ہماری کوشش ہے کہ جیسے یہ لاک ڈاؤن ختم ہوگا ہم اس پرکام شروع کردیں گے۔ریشم کے کیڑے پالنے اورپھران سے ریشم حاصل کرنے کے لئے یونٹ لگائے جائیں گے اوریہ کام گھریلوصنعت سے نکل کرکمرشل بنیادوں پر کیا جاسکے گا۔

چیچہ وطنی کے رہائشی محمداسلم نے بتایا لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہیں فائدہ ہوا ہے، ایک تو وہ گھرسے باہرنہیں نکلتے اوردوسرا یہ کہ ہم نے پچھلے سال ریشم کے کیڑوں کا ایک پیکٹ لیا تھا لیکن اب ہم نے تین پیکٹ لیے ہیں یعنی تقریبا ایک لاکھ کے قریب ریشم کے کیڑوں کی پرورش کررہے ہیں اوریہ کام ایک ماہ میں مکمل ہوجاتا ہے۔ اب اگرریشم اچھی ہوئی توانہیں ایک سے سوالاکھ روپے تک آمدن ہوگی۔

خاتون پروین بی بی کا کہنا تھا ہمیں اس بار ایک پیکٹ چائنہ سیڈ اورایک پیکٹ مقامی سیڈ کا ملا ہے، چائنہ کا سیڈزیادہ اچھا ہے ۔ انہوں نے کہا وہ گاؤں سے باہرلگے شہتوت کے درختوں سے پتے توڑلاتی ہیں جو ان کیڑوں کی خوراک ہے۔ ہم نے چارپائیوں پرہی ان کی پرورش کی ہے، اب یہ تیارہونے والے ہیں کیڑوں نے خول بناناشروع کردیئے ہیں۔

واضح رہے کہ کورونا وائرس اورلاک ڈاؤن کی وجہ سے پنجاب میں ریشم کی کیڑوں کی پرورش کا صرف 33 فیصد ٹارگٹ مکمل ہوسکے گا، ریشم کے کیڑے پالنے اوران سے ریشم حاصل کرنیوالوں کی آمدن میں 25 ملین روپے تک کمی کا امکان ہے۔ تاہم محکمہ جنگلات کے شعبہ سیری کلچرکا کہنا ہے کہ ریشم کے کیڑوں کی پرورش کا ہدف ستمبر سے نومبر تک کے سیزن میں حاصل کرلیں گے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *