فیڈریشن آف پاکستان آف چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی واحد خاتون نائب صدر معصومہ سبطین سے خصوصی گفتگو
روبینہ رشید
٭چین میں کام کرنے کی بہت گنجائش ہے اور وہاں ہمارے کلچرل چیزوں، ہینڈی کرافٹس وغیرہ کی بہت مانگ ہے، ان کے پاس سرمایہ ہے وہ ہمارے لئے بہترین مارکیٹ بن سکتے ہیں۔
٭میری کوشش یہ ہے کہ خواتین کے لئے بہتر اور مستحکم روڈ میپ بن سکے خواتین آج ملک کی باون فیصد آبادی ہیں ملک کی معیشت میں ان کا ایک بڑا کردار ہے اور اس کے لئے ہم نے CIPE-US Chamber of Commerce کے ساتھ وومن نیشنل بزنس ایجنڈا پر کام شروع کیا ہے۔ اس کے ذریعے مشاورت کر کے ایک مضبوط ڈاکیومنٹ بنا کر اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا تاکہ خواتین کے لئے آسانیاں پیدا کی جا سکیں۔
٭یاد رکھیں کہ آپ کے لئے معاشرہ تبدیل نہیں ہوگا ہم کو ان ہی حالات میں خود کو منوانا بھی ہے اور آگے بھی بڑھنا ہے۔تربیت کا جہاں موقع ملے ضرور شرکت کریں اور سیکھیں، ہمیشہ قابل عمل بزنس پلان بنائیں۔ایک دوسرے کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں، کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
فیشن اور ڈیزائنگ کے حلقوں میں بین الاقوامی شناخت کی حامل، ملک میں خواتین انٹرپرینؤرز کی ترقی کے لئے کوشاں ممتاز، مضبو ط اور بلند آواز ،پاکستان میں ایک بڑے فیشن نیٹ ورک کی مالک، ساوتھ پنجاب چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی سابقہ صدر، متاثر کن شخصیت، سادہ انداز، نرم لہجہ، جیت لینے والی مسکراہٹ،
انہیں بین الاقوامی نمائشوں میں پاکستان کی شناخت سمجھا جاتا ہے۔
بزنس کمیونٹی میں موجود خواتین رہنماوں کی پہلی صف میں بھی سب سے نمایاں نام معصومہ سبطین کا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اس وقت فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کی واحد خاتون نائب صدر کی ذمہ داری نبھا رہی ہیں۔ فیڈریشن میں وومن انٹر پرینیورز کے لئے اٹھارہ سے زائد اسٹینڈنگ کمیٹیاں ان کی پر عزم رہنمائی میں ملک بھر میں موجود کاروباری خواتین کی ترقی اور بہتری کے لئے کام کر رہی ہیں۔
ان سے گفتگو کا آغاز ان کے کیرئر کی شروعات سے ہوا۔ میں نے کام کا آغاز ایک ٹیچر کی حیثیت سے کیا تھا، چند ہی مہینوں میں مجھے بیکن ہاؤس بلایا گیا اور یوں میں نے بیکن ہاؤس جوائن کر لیا اور ڈھائی سال وہان کام کیا۔ جب شادی کیوجہ سے میں نے اسکول چھوڑا تب مجھے کوارڈینیٹر بنایا جا رہا تھا جو میرے لئے بہت عزت کی بات تھی۔ شادی کے چند ما بعد مجھے کام کا خیال آیا، اصل میں میرے سسر صاحب کے پاس ایک اسٹور تھا جو خرید کے بعد سے بند پڑا تھا، مجھے بچپن سے ڈیزائنگ کا شوق رہا تھا اور میں اپنے اور دوستوں کے کپڑے ڈیزائن کیا کرتی تھی۔ میں نے اپنے شوہر سے بوتیک کھولنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اجازت بھی مل گئی اور سب نے بہت حوصلہ افزائی بھی کی۔ شروعات پینتیس جوڑوں سے ہوئی تھی۔ میرے شوہر نے یہ ہی کہا تھا کہ بک گئے تو ٹھیک ورنہ تم خود پہن لینا۔مگر اللہ نے بڑا کرم کیا اور سارا مال ہاتھوں ہاتھ بک گیا یوں گاڑی چل پڑی۔ اب ملتان کا اپنا ایک کلچر ہے اور یہ بات ہے بھی بیس سال پرانی، وہاں باہر نکلنا اور باہر کے کام کرنا تھوڑا مشکل تھا مگر میرے شوہر نے میرا بہت ساتھ دیا۔ وہ سافٹ ویر انجینئر ہیں اور نیشنل بنک میں کام کرتے تھے۔میں گھر اور بزنس دونوں دیکھ رہی تھی۔ اللہ نے تین سالوں میں ایسی کامیابی دی کہ میرے شوہر نے ملازمت چھوڑ دی اور ہم نے اپنی ساری توجہ اپنے کام پر مرکوز کر دی۔ اس میں اپنی ثقافت اور ورثے کو سر فہرست رکھا۔ آج ہماری ایک بڑی اور بہترین ٹیم ہے اور خواتین ورکرز میں مکمل اعتماد موجود ہے ان کے خاندان بھی مطمئن ہیں۔ اس کے لئے ہم نے بہت کام کیا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری ٹیم ہمارا سرمایہ ہے۔
اس سفر میں جو سوچا تھا وہ حاصل ہوا؟
اللہ کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے، اس نے مجھے بہت عزت دی ہے میں بہت سے مملک اور یوں سمجھئے کہ تمام ہی بر اعظموں میں کامیاب ترین نمایشیں کی ہیں اس حوالے سے یو ایس آئی ڈی کے مقابلے بھی جیتے ہیں۔ آج ہمارا برانڈ ہر جگہ جانا جاتا ہیاور میری سب سے بڑی اچیومنٹ یا جیت میری بیٹی ہے وہ فیشن میں گریجویشن کر رہی ہے اور اس کا اپنا برانڈ بھی ہے جو کامیابی سے چل رہا ہے۔دراصل جب میں نے کام شروع کیا تب میرے پاس شوق، صلاحیت اور جذبہ تو تھا مگر باقاعدہ تربیت نہیں تھی جس کی وجہ سے بہت محنت کرنا پڑی۔ میں نے اس کے لئے بہت کام کیا ہے اور سب کہ یہ ہی کہتی ہوں کہ سیکھنے کا عمل جاری رکھیں۔ میری کوشش یہ ہے کہ خواتین کو کم از کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔جب میں چیمبر کی صدر تھی تب بھی میں نے اس کے لئے کام کیا اور اب بھی میں اپنے چیمبر کی نمائندہ ہوں، فیڈریشن میں بھی میں یہ ہی کوشش کر ہی ہوں کہ خواتین کے لئے مزید بہتر روڈ میپ بن سکے خواتین آج ملک کی باون فیصد آبادی ہیں ملک کی معیشت میں ان کا ایک بڑا کردار ہے اور اس کے لئے ہمیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ میں نے CIPE-US Chamber of Commerce کے ساتھ وومن نیشنل بزنس ایجنڈا پر کام شروع کیا ہے۔ اس کے ذریعے مشاورت کر کے ایک مضبوط ڈاکیومنٹ بنا کر اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا تاکہ خواتین کے لئے آسانیاں پیدا کی جا سکیں۔
موجودہ پالیسی کے تحت ہر ڈسٹرکٹ میں وومن چیمبرز بنائے جارہے ہیں کیا آپ اس سے اتفاق کرتی ہیں؟
مجھے اس سے اتفاق ہے مگر سوال یہ ہے کہ ان چیمبرز کہ بنا تو دیا جا رہا ہے مگر ان کے پاس نہ تو کوئی تربیت ہے اور نہ ہی وسائل تو یہ کام کیسے کریں گے؟ اور کیا یہ اس حالت میں اپنے قیام کا مقصد یعنی خواتین انٹرپرینیورز کا کچھ بھلا کر پایئں گے؟ اس مقصد کے لئے میں نے آل وومن چیمبرز پریزیڈنٹس کانفرنس بلائی تھیتاکہ طے کیا جائے کہ انہیں کیسے فعال بنایا جا سکتا ہے۔
کاروباری خواتین ہوں یا چیمبرز ان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ فنانسنگ یا سرمائے کا ہے؟
جی ہاں اور وومن بزنس ایجنڈا میں اس پر کام ہو رہا ہے، ہمیں وومن اسمال بزنس انٹرپرینیور پالیسی کی ضرورت ہے جو اس وقت موجود نہیں ہے۔ اس حوالے سے بہت کام کرنا ہے ہم ایک طرف تو پالیسی بنانے اور اس میں مثبت تبدیلی کے لئے مشاورت پر کام کرہے ہیں ساتھ ہی آگاہی اور تربیت پر بھی کام کر رہے ہیں۔
آپ نے اپنے بارے میں کیا سوچا تھا کیا بننا تھا؟
آرکیٹیکٹ بننا تھا۔ میں پڑھائی میں اچھی تھی مگر میں ایف اے سی میں تھی جب والد صاحب کا انتقال ہو گیا، یہ بہت بڑا صدمہ تھا میرا رزلٹ اچھا نہیں آسکا، میری والدہ میر ی مینٹور میری استاد ہیں وہ گھریلو خاتون ہیں یہ ان کا وژن ان کی سوچ اور کوشش ہے کہ آج ہم سب بہن بھائی اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب ہیں۔
کوئی ایسی مشکل جو یاد رہ گئی ہو؟
میری ذاتی زندگی کی بات ہے میری تین بیٹیاں تھیں اب دو ہیں میں نے ایک حادثے میں اپنی ساڑھے دس سال کی بیٹی کو کھویا ہے اس تکلیف اور مشکل کو الفاظ میں بیان کرنا نا ممکن ہے اس کا نام زویا تھا جس کا مطلب امید کی روشنی ہے۔ میں تو اس کے بعد گویا ختم ہو گئی تھی کام بھی چھوڑ دیا تھا مگر میرے ورکرز نے مجھے بہت سمجھایا کہ آپ اکیلی نہیں ہیں ہم سب آپ کے ساتھ جڑے ہیں رزق اللہ دیتا ہے مگر آپ نے اگر یہ وسیلہ بند کر دیا تو ہم سب مشکل میں آ جائیں گے وہ سب بھی ہماری فیملی ہیں ان کے لئے میں نے ہمت پکڑی۔ میری دوسری بیٹی کا بہت بڑا ایکسیڈنٹ ہوا میں اور میرے شوہر تو اپنے ہوش میں نہیں تھے، لندن میں اس کے علاج میں مصروف تھے مگر یہاں ہمارا سارا کام بالکل اسی طرح چل رہا تھا۔ ان سب باتوں نے مجھے بہت بڑا درس دیا ہے کہ جو اللہ نے آپ کے لئے رکھا ہے وہ ہر صورت ملتا ہے اور جو نہیں ہے وہ کچھ بھی کر لیں نہیں رہ سکتا۔اور یہ ایسی حقیقت ہے جو آپ کی ذہن کو بدل ڈالتی ہے۔ہاں کاروبار میں بھی کافی مشکلات آتی ہیں۔ ملتان جیسی جگہ پر کام کرنا اور خود کو منوانا زیادہ مشکل ہے مگر اللہ کی مجھ پربہت مہربانی رہی ہے۔ یہاں میں ایس ایم منیر صاحب افتخار علی ملک صاحب، مسز فرخ مختار ایس ایم نصیر صاحب اور اپنے دیگر رہنماؤں اور ساتھیوں کی شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے آگے بڑھایا، سپورٹ کیا میری ہمت بڑھائی۔ میرے شوہر جن کی مدد میری ہر کامیابی کی وجہ ہے میرے سسر صاحب جن کی حوصلہ افزائی نے مجھے آگے بڑھنے کی ہمت دی۔میں جہاں بھی گئی ہوں ہر جگہ بہت کامیابی میل ہے۔ اپنے علاقے میں ہی ہمارا سارا مال بک جاتا ہے میں انگلینڈ پاکستان شو پر تھی مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ ایک ہی جگہ پانچ خواتین نے ہمارا برانڈ پہنا ہوا تھا۔
اگر آپ سے پوچھا جائے کہ آپ کی کامیابی کی کنجی کیا ہے؟
کام کرنے کا عزم، مسلسل کوشش اور خود پر یقین بہت ضروری ہے۔ یوں سمجھئے کہ رولر کوسٹر کا سفر ہے اس میں خاندانی مشکلات بھی آیئں گی کام کے دوران بھی مسائل ہوں گے۔ یاد رکھیں کہ آپ کے لئے معاشرہ تبدیل نہیں ہوگا ہم کو ان ہی حالات میں خود کو منوانا بھی
ہے اور آگے بھی بڑھنا ہے۔تربیت کا جہاں موقع ملے ضرور شرکت کریں اور سیکھیں۔ میں خود ٹریننگ سیشن کرتی ہوں مگر اس کے باوجود بھی جب بھی موقع ملتا ہے ضرور سیکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہمیشہ قابل عمل بزنس پلان بنائیں۔ایک دوسرے کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں، کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
سی پیک امکانات کی نئی دنیا کا آغاز ہے آپ اس حوالے سے کیا کہتی ہیں؟
بالکل، کام کرنے کے بہت سے نئے راستے کھل رہے ہیں کاروباری خواتین کو اسے باریکی سے دیکھنا چاہیے اور اپنے لئے جگہ بنانی چاہیے۔ چین میں کام کرنے کی بہت گنجائش ہے اور وہاں ہمارے کلچرل چیزوں، ہینڈی کرافٹس وگیرہ کی بہت مانگ ہے، ان کے پاس سرمایہ ہے وہ ہمارے لئے بہترین مارکیٹ بن سکتے ہیں ضرورت یہ ہے کہ آپ جائزہ لیں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں پھر اس کے لئے قابل عمل پلان بنائیں اور کام شروع کر دیں۔
کوئی پیغام۔۔۔؟
میں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ خود پر یقین رکھیں اور کام کریں۔ یہ وہ وقت ہے جب ہمیں آنے والے وقت کے لئے تیار ہونا ہے اور اپنے ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔