جنوبی پنجاب کے شہر وہاڑی سے تعلق رکھنے والی شازیہ پروین کو پاکستان کی پہلی فائر فائٹر ہونے کا بلند حوصلوں کی مالک شازیہ پروین 2010 میں ریسکیو 1122 میں بطور فائر فائٹر اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور فائر فائٹنگ کو بطور پیشہ اختیار کرنے والی شازیہ وہاڑی کے علاقے کرم پور سے تعلق رکھتی ہیں، شازیہ کے والد آرمی کے ریٹائرڈ آفیسر ہیں اور وہ آٹھ بہن بھائی ہیں۔اب لاہور میں بطور انسٹرکٹر اپنے فرائض شازیہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ انہیں بچپن سے ہی کچھ نیا کرنے کا شوق اور جستجو تھی جو انہیں اس فیلڈ میں لے کر آیا۔سرانجام دے رہی ہیں۔اعزاز حاصل ہے۔
شازیہ کا کہنا ہے کہ 22 سال کی عمر میں جب میں ریسکیو سروس میں شامل ہوئی تو انہیں نہیں معلوم تھا کہ انہوں نے کہا کہ ’دوران ٹریننگ ریسکیو 1122 کے افسران نے جب بتایا کہ میں ایشیا کی پہلی خاتون فائر فائٹر ہیں تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی، تب مجھے ایسا لگا کہ آج میرا خواب پورا ہو گیا ہے۔‘وہ پاکستان کی پہلی خاتون فائر فایئٹر کا اعزاز اپنے نام کرنے والی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2016 تک انہوں نے بطور فائر فائٹر ڈیوٹی سر انجام دی، ترقی کے بعد اب وہ لاہور میں انہوں نے کہا کہ والد نے تمام بہن بھائیوں کو ہمشہ ایسا پیشہ اختیار کرنے پر زور دیا جہاں وہ لوگوں کی مدد پہلی فائر فائٹر نے کہا کہ ڈیوٹی کے دوران لوگ کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو حیران ہوجاتے ہیں کہ ایک خاتون اتنے مشکل کام کیسے کترسکتی ہے۔کرسکیں اور اپنے ملک کی خدمت کرسکیں۔بطور فائر انسٹرکٹر ڈیوٹی سر انجام دے رہی ہیں۔
ریسکیو سروس میں اپنے گزارے گئے دنوں کو یاد کرتے ہوئے شازیہ نے کہا کہ سروس کے دوران میرے انہوں نے کہا کہ مجھے آج بھی فائر فائٹرز کو تربیت دینے پر فخر ہے، تمام مردوں اور خواتین کو ایسے پیشوں میں شامل ہوکر اپنے ملک کی خدمت کیلئے پیش پیش رہنا چاہئے۔ہمیشہ احترام کا خیال رکھا جاتا تھا شازیہ پروین نے اس شعبے میں آنے والی دوسری لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ وہ ضرور یہ پیشہ اختیار کریں اور عوام کی خدمت میں ہر اول دستے کا کردار ادا کر کے فخر محسوس کریں۔ساتھیوں کی حمایت ہر وقت ساتھ رہتی تھی۔